Book - حدیث 1534

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ مَا جَاءَ فِي الصَّلَاةِ عَلَى النَّجَاشِيِّ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ النَّجَاشِيَّ قَدْ مَاتَ» فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ إِلَى الْبَقِيعِ، فَصَفَّنَا خَلْفَهُ، وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَبَّرَ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ

ترجمہ Book - حدیث 1534

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب : حضرت نجاشی  کی نماز جنازہ کا بیان ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’نجاشی فوت ہوگیا ہے، (اس کے بعد) رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھی بقیع میں تشریف لے گئے۔ آپ نے اپنے پیچھے ہماری صفیں بنائیں۔ رسول اللہ ﷺ (خود) آگے بڑھے اور چار تکبیریں کہیں۔
تشریح : 1۔حضرت نجاشی رحمۃ اللہ علیہ حبشہ کے بادشاہ تھے ان کا نام اصحمہ تھا۔(صحیح البخاری مناقب الانصار باب موت النجاشی حدیث 3879)حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے نجاشی کی وفات 8 یا 9ہجری لکھی ہے۔اور فرمایا ہے کہ اکثر علماء کے نزدیک ان کی وفات 9 ہجری میں ہوئی ہے۔دیکھئے۔(فتح الباری7/240 حدیث 3877)2۔مذکورہ حدیث سے غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا جواز معلوم ہوتا ہے تاہم یہ مسئلہ آج تک علماء کے مابین مختلف فیہ چلا آرہا ہے۔بعض علماء کہتے ہیں کہ ہر ایک میت کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے حتیٰ کہ بعض نے تو یہاں تک کہا ہے کہ آدمی کوچاہیے کہ ہرشام کو نماز جنازہ پڑھے اور نیت یہ کرے کہ ہر اس مسلمان کی نماز جنازہ ہے۔جو آج روئے زمین پر فوت ہوا ہے۔کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ ہر ایک کی غائبانہ نماز جنازہ جائز نہیں۔صرف اسی شخص کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جائے۔جس کے بارے میں یہ معلوم ہوکہ اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی ۔شیخ الاسلام ابن تیمیہرحمۃ اللہ علیہ اور شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ نے اسی قول کوراحج قراردیا ہے۔جبکہ ایک تیسرے گروہ کا کہنا ہے کہ ہراس شخص کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جائے جس نے علم نافع وغیرہ کی صورت میں مسلمانوں پر احسان کیاہو۔تاہم اس مسئلے کی بابت ہمارے نزدیک راحج اور اقرب الی الصواب بات درج زیل باتوں کو ملحوظ رکھنا ہے۔ v فوت ہونے والا اچھی شہرت اور سیاسی مذہبی اور علمی حیثیت کا حامل ہو۔ہرچھوٹے بڑے کی نماز جنازہ غائبانہ طور پر پڑھناغیر مسنون ہے۔ v غائبانہ نماز جنازہ کی ادایئگی میں سیاسی یا مالی مفادات وابستہ نہ ہوں۔صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی مطلوب ہو۔ v اس کے لئے اعلانات کرنا۔اشتہارات اور بینرز وغیرہ لگانا مخصوص علمائے کرام یا مذہبی وسیاسی قائدین سے نماز جنازہ پڑھوانا نیز انتظار اور اسی قسم کے دیگر زرائع ابلاغ کو استعمال کرنا جیسا کہ آج کل ہمارے ہاں یہ وبا عام ہے۔شرعی طور پر محل نظر ہے لہذا اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ غائبانہ نماز جنازہ کے موقع پرتقاریر یا خطابات کا بھی قطعا اہتمام نہ ہو ایسا کرنا رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمعین سے ثابت نہیں۔بصورت دیگر فوت ہونے والے شخص کےلئے صرف دعا کرنا ہی زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اسے اپنی خصوصی دعائوں میں یاد رکھا جائے۔واللہ اعلم بالصواب۔3۔غائبانہ نماز جنازہ کا طریقہ وہی ہے جو میت سامنے ہونے کی صورت میں ہے۔ 1۔حضرت نجاشی رحمۃ اللہ علیہ حبشہ کے بادشاہ تھے ان کا نام اصحمہ تھا۔(صحیح البخاری مناقب الانصار باب موت النجاشی حدیث 3879)حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے نجاشی کی وفات 8 یا 9ہجری لکھی ہے۔اور فرمایا ہے کہ اکثر علماء کے نزدیک ان کی وفات 9 ہجری میں ہوئی ہے۔دیکھئے۔(فتح الباری7/240 حدیث 3877)2۔مذکورہ حدیث سے غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا جواز معلوم ہوتا ہے تاہم یہ مسئلہ آج تک علماء کے مابین مختلف فیہ چلا آرہا ہے۔بعض علماء کہتے ہیں کہ ہر ایک میت کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے حتیٰ کہ بعض نے تو یہاں تک کہا ہے کہ آدمی کوچاہیے کہ ہرشام کو نماز جنازہ پڑھے اور نیت یہ کرے کہ ہر اس مسلمان کی نماز جنازہ ہے۔جو آج روئے زمین پر فوت ہوا ہے۔کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ ہر ایک کی غائبانہ نماز جنازہ جائز نہیں۔صرف اسی شخص کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جائے۔جس کے بارے میں یہ معلوم ہوکہ اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی ۔شیخ الاسلام ابن تیمیہرحمۃ اللہ علیہ اور شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ نے اسی قول کوراحج قراردیا ہے۔جبکہ ایک تیسرے گروہ کا کہنا ہے کہ ہراس شخص کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جائے جس نے علم نافع وغیرہ کی صورت میں مسلمانوں پر احسان کیاہو۔تاہم اس مسئلے کی بابت ہمارے نزدیک راحج اور اقرب الی الصواب بات درج زیل باتوں کو ملحوظ رکھنا ہے۔ v فوت ہونے والا اچھی شہرت اور سیاسی مذہبی اور علمی حیثیت کا حامل ہو۔ہرچھوٹے بڑے کی نماز جنازہ غائبانہ طور پر پڑھناغیر مسنون ہے۔ v غائبانہ نماز جنازہ کی ادایئگی میں سیاسی یا مالی مفادات وابستہ نہ ہوں۔صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی مطلوب ہو۔ v اس کے لئے اعلانات کرنا۔اشتہارات اور بینرز وغیرہ لگانا مخصوص علمائے کرام یا مذہبی وسیاسی قائدین سے نماز جنازہ پڑھوانا نیز انتظار اور اسی قسم کے دیگر زرائع ابلاغ کو استعمال کرنا جیسا کہ آج کل ہمارے ہاں یہ وبا عام ہے۔شرعی طور پر محل نظر ہے لہذا اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ غائبانہ نماز جنازہ کے موقع پرتقاریر یا خطابات کا بھی قطعا اہتمام نہ ہو ایسا کرنا رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمعین سے ثابت نہیں۔بصورت دیگر فوت ہونے والے شخص کےلئے صرف دعا کرنا ہی زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اسے اپنی خصوصی دعائوں میں یاد رکھا جائے۔واللہ اعلم بالصواب۔3۔غائبانہ نماز جنازہ کا طریقہ وہی ہے جو میت سامنے ہونے کی صورت میں ہے۔