Book - حدیث 1511

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ مَا جَاءَ فِي الصَّلَاةِ عَلَى ابْنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذِكْرِ وَفَاتِهِ صحیح حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ شَبِيبٍ الْبَاهِلِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عُتَيْبَةَ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ _ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ _ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: «إِنَّ لَهُ مُرْضِعًا فِي الْجَنَّةِ، وَلَوْ عَاشَ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا، وَلَوْ عَاشَ لَعَتَقَتْ أَخْوَالُهُ الْقِبْطُ، وَمَا اسْتُرِقَّ قِبْطِيٌّ»

ترجمہ Book - حدیث 1511

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب : رسول اللہﷺ کے فرزند کی وفات اور جنازے کا بیان عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کے فرزند ابراہیم ؓ کی وفات ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے ان کا جنازہ پڑھااور فرمایا: ’’اس کے لیے جنت میں ایک دود پلانے والی مقرر ہے اور اگر وہ زندہ رہتا تو نبی صدیق ہوتا اور اگر وہ زندہ رہتا تو اس کے ماموں قبطی آزاد ہو جاتے، پھر کسی قبطی کو غلام نہ بنایا جاتا۔‘‘
تشریح : 1۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔جبکہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کی تحقیق میں لکھتے ہیں۔یہ جملہ اگر ابراہیمرضی اللہ تعالیٰ عنہ زندہ رہتے تو نبی ہوتے مرفوع حدیث کے طور پر ثابت نہیں۔البتہ صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمعین کے قول کے طور پر صحیح ہے۔اور مذید لکھتے ہیں کہ اس جملے(ولوعاش.......وما استرق قبطي)کے سوا صحیح ہے۔نیز دکتور بشار عواد نے بھی مذکورہ روایت کے آخری جملے ( لعتقت اخوانه) کے سوا صحیح قرار دیا ہے۔تفصیل کےلئے دیکھئے۔(سلسلۃ الاحادیث ضعیفۃ والموضوعۃ 1/387۔388۔حدیث 220۔وصحیح سنن ابن ماجہ حدیث 1236۔وسنن ابن ماجہ للدکتور بشار عواد حدیث 1511)2۔حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب فوت ہوئے تو ان کی دودھ پینے کی عمر تھی۔اللہ تعالیٰ نے انھیں یہ شرف بخشا کہ انھوں نے جنت کی حوروں کادودھ پیا۔ممکن ہے کہ یہ شرف حضرت ابراہیمرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے مخصوص ہو اور ممکن ہے کہ اہل ایمان کے جو بچے شیر خوار فوت ہو جاتے ہیں۔ان سب کے لئے ایسا ہو۔بہرحال یہ غیبی امور ہیں ۔اس لئے حقیقت حال سے اللہ تعالیٰ ہی واقف ہے۔ 1۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔جبکہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کی تحقیق میں لکھتے ہیں۔یہ جملہ اگر ابراہیمرضی اللہ تعالیٰ عنہ زندہ رہتے تو نبی ہوتے مرفوع حدیث کے طور پر ثابت نہیں۔البتہ صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمعین کے قول کے طور پر صحیح ہے۔اور مذید لکھتے ہیں کہ اس جملے(ولوعاش.......وما استرق قبطي)کے سوا صحیح ہے۔نیز دکتور بشار عواد نے بھی مذکورہ روایت کے آخری جملے ( لعتقت اخوانه) کے سوا صحیح قرار دیا ہے۔تفصیل کےلئے دیکھئے۔(سلسلۃ الاحادیث ضعیفۃ والموضوعۃ 1/387۔388۔حدیث 220۔وصحیح سنن ابن ماجہ حدیث 1236۔وسنن ابن ماجہ للدکتور بشار عواد حدیث 1511)2۔حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب فوت ہوئے تو ان کی دودھ پینے کی عمر تھی۔اللہ تعالیٰ نے انھیں یہ شرف بخشا کہ انھوں نے جنت کی حوروں کادودھ پیا۔ممکن ہے کہ یہ شرف حضرت ابراہیمرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے مخصوص ہو اور ممکن ہے کہ اہل ایمان کے جو بچے شیر خوار فوت ہو جاتے ہیں۔ان سب کے لئے ایسا ہو۔بہرحال یہ غیبی امور ہیں ۔اس لئے حقیقت حال سے اللہ تعالیٰ ہی واقف ہے۔