Book - حدیث 150

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ فَضْلِ سَلْمَانَ وَأَبِي ذَرٍّ وَالْمِقْدَادِ حسن صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: كَانَ أَوَّلَ مَنْ أَظْهَرَ إِسْلَامَهُ سَبْعَةٌ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعَمَّارٌ، وَأُمُّهُ سُمَيَّةُ، وَصُهَيْبٌ، وَبِلَالٌ، وَالْمِقْدَادُ، فَأَمَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَنَعَهُ اللَّهُ بِعَمِّهِ أَبِي طَالِبٍ، وَأَمَّا أَبُو بَكْرٍ فَمَنَعَهُ اللَّهُ بِقَوْمِهِ، وَأَمَّا سَائِرُهُمْ فَأَخَذَهُمُ الْمُشْرِكُونَ، وَأَلْبَسُوهُمْ أَدْرَاعَ الْحَدِيدِ، وَصَهَرُوهُمْ فِي الشَّمْسِ، فَمَا مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ وَاتَاهُمْ عَلَى مَا أَرَادُوا، إِلَّا بِلَالًا، فَإِنَّهُ هَانَتْ عَلَيْهِ نَفْسُهُ فِي اللَّهِ، وَهَانَ عَلَى قَوْمِهِ، فَأَخَذُوهُ فَأَعْطَوْهُ الْوِلْدَانَ، فَجَعَلُوا يَطُوفُونَ بِهِ فِي شِعَابِ مَكَّةَ، وَهُوَ يَقُولُ: أَحَدٌ أَحَدٌ

ترجمہ Book - حدیث 150

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: حضرت سلمان، ابوذر اور مقداد کے فضائل حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: سب سے پہلے اسلام کا اظہار کرنے والے ساتھ حضرات ہیں۔ رسول اللہ ﷺ ابو بکر، عمار، ان کی والدہ سمیہ، صہیب ، بلال اور مقداد ؓم ۔ رسول اللہ کو تو اللہ نے آپ ﷺ کے چچا ابو طالب کے ذریعے سے (مشرکین کی اذیتوں سے ) محفوظ رکھا، ابو بکر ؓ کو بھی اللہ نے ان کی قوم کے ذریعے سے محفوظ رکھا، باقی جو حضرات تھے انہیں مشرکوں نے پکڑ لیا، انہیں لوہے کی زرہیں پہنا کر دھوپ میں ڈال دیا، چنانچہ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جس نے( جان بچانے کے لئے زبان سے) مشرکین کے مطلب کی بات نہ کہہ دی ہو، سوائے بلا ؓ کے۔ انہوں نے اللہ کی راہ میں اپنی جان کی پروا نہ کی اور ان کی قوم کی نظر میں بھی ان کی کوئی قدر نہ تھی( اس لئے کوئی ان کی حمایت میں نہیں بولتا تھا) کافروں نے انہیں پکڑ کر بچوں کے حوالے کر دیا۔ وہ انہیں مکہ کی گھاٹیوں میں لیے( گھسیٹتے) پھرتے تھے اور حضرت بلال ؓ کہتے تھے: اَحد اَحد ( اللہ ایک ہے، ایک ہے۔ )
تشریح : (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی جسمانی تکلیفیں برداشت کرنا پڑیں۔ لیکن مذکورہ بالا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے جو تکلیفیں برداشت کیں، وہ بہت شدید تھیں۔ ابو طالب کو اہل مکہ میں ایک معزز مقام حاصل تھا، لہذا بہت سے لوگ ابوطالب کا احترام کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینے سے اجتناب کرتے تھے۔ اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی ان کے قبیلے کا لحاظ کر کے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہین جسمانی طور پر تکلیفیں بالکل نہیں پہنچیں، البتہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ وغیرہ کو بے حد تکلیفیں پہنچائی گئیں۔ (2) صحابہ کرام رضی اللہ عھم نے مشرکین کی موافقت میں زبان سے جو کچھ کہا، اس سے ان کے مقام و مرتبہ میں کوئی فرق نہیں آیا کیونکہ ایسے موقع پر جب مصائب برداشت سے باہر ہو جائیں، جان بچانے کے لیے کلمہ کفر کہنے کی اجازت خود قرآن نے دی ہے۔ (دیکھیے: سورہ نحل:106) (3) اس سے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی استقامت و عظمت ظاہر ہوتی ہے کہ انہوں نے رخصت کے بجائے عزیمت کا راستہ اختیار کیے رکھا، اور زبان سے کبھی ایک بار بھی ان کی مرضی کے مطابق کوئی لفظ نہیں بولا، حالانکہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو جو تکلیفیں دی گئی ہیں، وہ اتنی شدید ہیں کہ ان کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی جسمانی تکلیفیں برداشت کرنا پڑیں۔ لیکن مذکورہ بالا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے جو تکلیفیں برداشت کیں، وہ بہت شدید تھیں۔ ابو طالب کو اہل مکہ میں ایک معزز مقام حاصل تھا، لہذا بہت سے لوگ ابوطالب کا احترام کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینے سے اجتناب کرتے تھے۔ اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی ان کے قبیلے کا لحاظ کر کے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہین جسمانی طور پر تکلیفیں بالکل نہیں پہنچیں، البتہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ وغیرہ کو بے حد تکلیفیں پہنچائی گئیں۔ (2) صحابہ کرام رضی اللہ عھم نے مشرکین کی موافقت میں زبان سے جو کچھ کہا، اس سے ان کے مقام و مرتبہ میں کوئی فرق نہیں آیا کیونکہ ایسے موقع پر جب مصائب برداشت سے باہر ہو جائیں، جان بچانے کے لیے کلمہ کفر کہنے کی اجازت خود قرآن نے دی ہے۔ (دیکھیے: سورہ نحل:106) (3) اس سے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی استقامت و عظمت ظاہر ہوتی ہے کہ انہوں نے رخصت کے بجائے عزیمت کا راستہ اختیار کیے رکھا، اور زبان سے کبھی ایک بار بھی ان کی مرضی کے مطابق کوئی لفظ نہیں بولا، حالانکہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو جو تکلیفیں دی گئی ہیں، وہ اتنی شدید ہیں کہ ان کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔