كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ تَعْظِيمِ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِﷺ وَالتَّغْلِيظِ عَلَى مَنْ عَارَضَهُ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ بْنِ الْمُهَاجِرِ الْمِصْرِيُّ أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ خَاصَمَ الزُّبَيْرَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ الَّتِي يَسْقُونَ بِهَا النَّخْلَ فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ سَرِّحْ الْمَاءَ يَمُرُّ فَأَبَى عَلَيْهِ فَاخْتَصَمَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْقِ يَا زُبَيْرُ ثُمَّ أَرْسِلْ الْمَاءَ إِلَى جَارِكَ فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ يَا زُبَيْرُ اسْقِ ثُمَّ احْبِسْ الْمَاءَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ قَالَ فَقَالَ الزُّبَيْرُ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَحْسِبُ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي ذَلِكَ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت
باب: حدیث رسول ﷺ کی تعظیم اور اس کی مخالفت کرنے والے پر سختی کرنے کا بیان
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری آدمی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حضرت زبیر ؓ کے خلاف حرہ کی ان برساتی ندیوں کے متعلق دعوی پیش کیا، جن سے وہ کھجوروں (کے باغات) کو سیراب کرتے تھے۔ انصاری نے کہا: پانی چھوڑ دو کہ گزر کر( میرے کھیت میں) آجائے۔ حضرت زبیر ؓ نے انکار کر دیا۔ دونوں اپنا جھگڑا رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے، تو آپ نے فرمایا:‘‘زبیر! (اپنے باغ کو) سینچ کر اپنے پڑوسی کے لئے پانی چھوڑ دیا کرو۔’’ انصاری نے ناگواری کا اظہار کیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! (آپ نے یہ فیصلہ) اس لئے( کیا ہے) کہ وہ آپ کی پھوپھی کا بیٹا ہے۔( یہ سن کر) اللہ کے رسول ﷺ کے چہرہٴ مبارک کا رنگ بدل گیا۔ پھر فرمایا:‘‘زبیر! باغ کو پانی دو، پھر پانی کو روکے رکھو حتی کہ منڈیروں تک پہنچ جائے (اور باغ خوب) سیراب ہو جائے۔) حضرت زبیر ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم ! میرے خیال میں تو یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی ہے: ﴿فَلَا وَ رَبِّكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَ يُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا ﴾‘‘قسم ہے آپ کے رب کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلاف میں آپ کو منصف نہ مان لیں، پھر آپ کے فیصلے پر دل میں کوئی ناگواری بھی محسوس نہ کریں، اور( اسے) پوری طرح تسلیم کر لیں۔ ’’
تشریح :
(1) دریا اور ندی وغیرہ کے پانی پر ان لوگوں کا حق فائق ہے جن کی زمین میں پانی پہلے پہنچتا ہے،ان کی ضرورت پوری ہونے کے بعد ان کے ساتھ والوں کا حق ہے۔ (2) ہمسائے کی ضرورت کا خیال رکھنا مسلمان کا اخلاقی فرض ہے۔ (3) فیصلہ کرتے وقت بہتر ہے کہ اس انداز سے فیصلہ کیا جائے جس میں دونوں فریقوں کو فائدہ ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: () (النساء:128) صلھ کرنا بہتر ہے۔ (4) حق دار کو پورا حق دلایا جائے تو یہ بھی درست ہے، اگرچہ اس سے دوسرے فریق کو فائدہ نہ پہنچے، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے جو فیصلہ کیا تھا، اس میں فریقین کے فائدے کو مدنظر رکھا تھا۔ بعد میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو پوا حق دلوایا۔ (5) منڈیر سے مراد چھوٹی سی دیوار سے مشابہ حد بندی ہے، یعنی اتنا پانی دو کہ کھیت پورا بھر جائے۔ اس کا اندازہ علمائے کرام نے پاؤں کے ٹخنے تک بیان کیا ہے، یعنی اتنا پانی ہو جائے کہ کھیت میں پاؤں رکھیں تو ٹخنوں تک پانی پہنچے۔ یا اس سے مراد وہ منڈیر ہے جو کجھور کے ہر ایک درخت کے گرد بنائی جاتی ہے، تاکہ تھالے (گڑھے) میں پانی بھر جائے۔ (6) ناگوار بات سن کر دل میں ناراضی پیدا ہونا اور چہرے پر اس کا اثر ظاہر ہونا بشری تقاضا ہے، لیکن غصے کا اثر فیصلے پر نہیں پڑنا چاہیے۔ اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: قاضی کو غصے کی حالت میں دو افراد کے درمیان فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ (صحيح البخاري‘ الاحكام‘ باب هل القاضي او يفتي وهو غضبان‘ حديث:7158‘ وصحيح مسلم‘ الاقضية‘ باب كراهة قضاء القاضي وهو غضبان‘ حديث:1717) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی خصوصی حفاظت حاصل تھی، اس لیے آپ غصے کی حالت میں بھی ہر بات حق اور درست ہی فرماتے تھے، جبکہ کوئی اور شخص اس سے معصوم نہیں۔ (7) بدظنی بری چیز ہے، جس کی بنیاد شیطانی وسوسے پر ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی یہ تصور کر لیا کہ نبی صلی اللہ علہ وسلم نے فیصلہ کرتے ہوئے قرابت کا لحاظ کیا ہے۔ (8) ایمان کا تقاضا ہے کہ اختلاف کے موقع پر قرآن و حدیث کی روشنی میں فیصؒہ کیا جائے اور پھر اس فیصلے کو خوش دلی سے قبول بھی کیا جائے۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی عالم یا قاضی معصوم نہیں، اس سے نادانستہ طور پر غلطی کا صدور ہو سکتا ہے۔ اسی لیے سلف صالحین کو جب اپنی غلطی کا احساس ہوتا تھا تو وہ اپنے فیصؒے اور فتوے سے رجوع فرما لیا کرتے تھے۔ اب بھی علمائے حق کا یہی شیوہ ہے اور ہونا چاہیے۔
(1) دریا اور ندی وغیرہ کے پانی پر ان لوگوں کا حق فائق ہے جن کی زمین میں پانی پہلے پہنچتا ہے،ان کی ضرورت پوری ہونے کے بعد ان کے ساتھ والوں کا حق ہے۔ (2) ہمسائے کی ضرورت کا خیال رکھنا مسلمان کا اخلاقی فرض ہے۔ (3) فیصلہ کرتے وقت بہتر ہے کہ اس انداز سے فیصلہ کیا جائے جس میں دونوں فریقوں کو فائدہ ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: () (النساء:128) صلھ کرنا بہتر ہے۔ (4) حق دار کو پورا حق دلایا جائے تو یہ بھی درست ہے، اگرچہ اس سے دوسرے فریق کو فائدہ نہ پہنچے، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے جو فیصلہ کیا تھا، اس میں فریقین کے فائدے کو مدنظر رکھا تھا۔ بعد میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو پوا حق دلوایا۔ (5) منڈیر سے مراد چھوٹی سی دیوار سے مشابہ حد بندی ہے، یعنی اتنا پانی دو کہ کھیت پورا بھر جائے۔ اس کا اندازہ علمائے کرام نے پاؤں کے ٹخنے تک بیان کیا ہے، یعنی اتنا پانی ہو جائے کہ کھیت میں پاؤں رکھیں تو ٹخنوں تک پانی پہنچے۔ یا اس سے مراد وہ منڈیر ہے جو کجھور کے ہر ایک درخت کے گرد بنائی جاتی ہے، تاکہ تھالے (گڑھے) میں پانی بھر جائے۔ (6) ناگوار بات سن کر دل میں ناراضی پیدا ہونا اور چہرے پر اس کا اثر ظاہر ہونا بشری تقاضا ہے، لیکن غصے کا اثر فیصلے پر نہیں پڑنا چاہیے۔ اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: قاضی کو غصے کی حالت میں دو افراد کے درمیان فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ (صحيح البخاري‘ الاحكام‘ باب هل القاضي او يفتي وهو غضبان‘ حديث:7158‘ وصحيح مسلم‘ الاقضية‘ باب كراهة قضاء القاضي وهو غضبان‘ حديث:1717) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی خصوصی حفاظت حاصل تھی، اس لیے آپ غصے کی حالت میں بھی ہر بات حق اور درست ہی فرماتے تھے، جبکہ کوئی اور شخص اس سے معصوم نہیں۔ (7) بدظنی بری چیز ہے، جس کی بنیاد شیطانی وسوسے پر ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی یہ تصور کر لیا کہ نبی صلی اللہ علہ وسلم نے فیصلہ کرتے ہوئے قرابت کا لحاظ کیا ہے۔ (8) ایمان کا تقاضا ہے کہ اختلاف کے موقع پر قرآن و حدیث کی روشنی میں فیصؒہ کیا جائے اور پھر اس فیصلے کو خوش دلی سے قبول بھی کیا جائے۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی عالم یا قاضی معصوم نہیں، اس سے نادانستہ طور پر غلطی کا صدور ہو سکتا ہے۔ اسی لیے سلف صالحین کو جب اپنی غلطی کا احساس ہوتا تھا تو وہ اپنے فیصؒے اور فتوے سے رجوع فرما لیا کرتے تھے۔ اب بھی علمائے حق کا یہی شیوہ ہے اور ہونا چاہیے۔