Book - حدیث 1476

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنِ النَّعْيِ ضعیف حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ بِلَالِ بْنِ يَحْيَى، قَالَ: كَانَ حُذَيْفَةُ إِذَا مَاتَ لَهُ الْمَيِّتُ، قَالَ: لَا تُؤْذِنُوا بِهِ أَحَدًا، إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَكُونَ نَعْيًا، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأُذُنَيَّ هَاتَيْنِ، «يَنْهَى عَنِ النَّعْيِ»

ترجمہ Book - حدیث 1476

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب : وفات کا اعلان کرنا منع ہے بلال بن یحییٰ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: جب حذیفہ بن یمان ؓ کے اقارب میں سے کوئی فوت ہو جاتا تو وہ فرماتے : کسی کو اس کی اطلاع نہ کرنا، میں ڈرتا ہوں کہ یہ بھی نعی( اعلان) میں شامل نہ ہو۔ میں نے اپنے دونوں کانوں سے رسول اللہ ﷺ کو موت کے اعلان سے منع کرتے سنا ہے۔
تشریح : 1۔جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ جب کوئی آدمی مرجاتا تو چند افراد کو مقرر کیاجاتا تاکہ بازاروں اور گلی کوچوں میں گھوم پھر کر اس کی وفات کا رو رو کر اعلان کریں۔مرنے والا جتنی اہم شخصیت کا حامل ہوتا۔اتنا ہی زیادہ اہتمام کیا جاتا۔اسے نعی کہتے تھے۔2۔سادہ طریقے سے ایک دوسرے کو اطلاع دیناجائز ہے۔تاکہ لوگ اس کے کفن دفن کا اہتمام اور نماز جنازہ میں شرکت کرسکیں۔جب حبشہ میں حضرت نجاشی کی وفات ہوئی ۔تو مدینہ میں رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کوخبردی۔اور نماز جنازہ غائبانہ ادا فرمائی۔علاوہ ازیں جنگ موتہ میں حضرت زید۔حضرت جعفرطیار۔اور حضرات عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کے لشکر کی قیادت کرتے ہوئے یکے بعددیگرے شہید ہوگئے۔تو رسول اللہ ﷺ کو وحی کے زریعے خبر ہوئی آپﷺنے اس وقت مدینہ منورہ میں صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمعین کو ان حضرات کی شہادت کی خبر دی دیکھئے۔(صحیح البخاری۔الجنائز باب الرجل ینعی الی اھل المیت بنفسہ حدیث 1245۔1246)اس جنگ میں حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمانوں کے لشکر کی قیادت کی اور کامیابی سے واپس لوٹے۔اس موقع پر رسول اللہﷺ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ کی تلوار کے نام یاد سے فرمایا تھا چنانچہ ان کالقب سیف اللہ مشہور ہوگیا۔3۔یہ روایت بعض کے نزدیک حسن ہے۔اور اس میں بھی ممانعت سے مراد اعلان کا وہ جاہلی انداز ہے جس کی وضاحت سطور بالا میں کی گئی ہے۔ 1۔جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ جب کوئی آدمی مرجاتا تو چند افراد کو مقرر کیاجاتا تاکہ بازاروں اور گلی کوچوں میں گھوم پھر کر اس کی وفات کا رو رو کر اعلان کریں۔مرنے والا جتنی اہم شخصیت کا حامل ہوتا۔اتنا ہی زیادہ اہتمام کیا جاتا۔اسے نعی کہتے تھے۔2۔سادہ طریقے سے ایک دوسرے کو اطلاع دیناجائز ہے۔تاکہ لوگ اس کے کفن دفن کا اہتمام اور نماز جنازہ میں شرکت کرسکیں۔جب حبشہ میں حضرت نجاشی کی وفات ہوئی ۔تو مدینہ میں رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کوخبردی۔اور نماز جنازہ غائبانہ ادا فرمائی۔علاوہ ازیں جنگ موتہ میں حضرت زید۔حضرت جعفرطیار۔اور حضرات عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کے لشکر کی قیادت کرتے ہوئے یکے بعددیگرے شہید ہوگئے۔تو رسول اللہ ﷺ کو وحی کے زریعے خبر ہوئی آپﷺنے اس وقت مدینہ منورہ میں صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمعین کو ان حضرات کی شہادت کی خبر دی دیکھئے۔(صحیح البخاری۔الجنائز باب الرجل ینعی الی اھل المیت بنفسہ حدیث 1245۔1246)اس جنگ میں حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمانوں کے لشکر کی قیادت کی اور کامیابی سے واپس لوٹے۔اس موقع پر رسول اللہﷺ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ کی تلوار کے نام یاد سے فرمایا تھا چنانچہ ان کالقب سیف اللہ مشہور ہوگیا۔3۔یہ روایت بعض کے نزدیک حسن ہے۔اور اس میں بھی ممانعت سے مراد اعلان کا وہ جاہلی انداز ہے جس کی وضاحت سطور بالا میں کی گئی ہے۔