Book - حدیث 1465

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ مَا جَاءَ فِي غَسْلِ الرَّجُلِ امْرَأَتَهُ، وَغَسْلِ الْمَرْأَةِ زَوْجَهَا حسن حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْبَقِيعِ، فَوَجَدَنِي وَأَنَا أَجِدُ صُدَاعًا فِي رَأْسِي، وَأَنَا أَقُولُ: وَا رَأْسَاهُ، فَقَالَ: «بَلْ أَنَا يَا عَائِشَةُ وَا رَأْسَاهُ» ثُمَّ قَالَ: «مَا ضَرَّكِ لَوْ مِتِّ قَبْلِي، فَقُمْتُ عَلَيْكِ، فَغَسَّلْتُكِ، وَكَفَّنْتُكِ، وَصَلَّيْتُ عَلَيْكِ، وَدَفَنْتُكِ»

ترجمہ Book - حدیث 1465

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب : خاوند کا بیوی کو اور بیوی کا خاوند کو غسل دینا عائشہ ؓا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ بقیع سے آئے تو دیکھا کہ میرے سر میں درد ہو رہا ہے اور میں کہہ رہی ہوں: ہائے میرا سر! نبی ﷺ نے فرمایا: ’’بلکہ عائشہ !میں( کہتا ہوں): ہائے میرا سر! ‘‘ پھر فرمایا: ’’تمہارا کیا نقصان ہے اگر تمہاری وفا مجھ سے پہلے ہوگئی؟ ( اس صورت میں) میں خود تمہارے لیے( کفن دفن کا) اہتمام کروں گا ، تمہیں خود غسل دوں گا ، خوف کفن پہناؤں گا، خود تمہارا جنازہ پڑھوں گا اور خود دفن کروں گا۔‘‘
تشریح : 1۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سند ضعیف قراردیا ہے اور مذید لکھا ہے کہ مذکورہ حدیث کے بعض حصے کے شواہد صحیح بخاری میں ہیں۔جبکہ دیگر محققین نے مذکورہ روایت کوحسن قراردیا ہے۔تفصیل کے لئے دیکھئے۔(الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد 43/8182 والا رواء حدیث 700)لہذا مذکورہ روایت سندا ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔2۔یہ واقعہ 29 صفر 11ھ بروز پیر کا ہے دیکھئے۔(الرحیق المختوم ص 624)یہ اس مرض کی ابتداء تھی۔جس میں رسول اللہ ﷺکی وفات ہوئی۔3۔جسمانی تکلیف کا اظہار توکل اور رضا بالقضا کے منافی نہیں۔4۔خاوند اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے۔اور کفن پہنا سکتا ہے۔بعض علماء نے اس حکم کو رسول اللہﷺ کے ساتھ خاص قرار دیا ہے۔لیکن تخصیص کی کوئی دلیل نہیں۔بلکہ صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمعین کے عمل سے اس کی عمومیت ثابت ہے۔جیسا کہ موطا اوربیہقی کی روایات میں ہے۔(ان اسماء بنت عمیس غسلت ابا بکر حین توفی) ابو بکر کی وفات پر اسماء بنت عمیس نے انھیں غسل دیا (موطا امام مالک الجنائز باب غسل المیت والسنن الکبریٰ للبہقی 3/397)ایسے ہی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق وارد ہے کہ انھوں نے اپنی زوجہ محترمہ فاطمہ بنت رسولﷺ کو انکی وفات پر غسل دیا تھا۔دیکھئے۔(سنن دارقطنی الجنائز باب الصلاۃ علی القبر والسنن الکبریٰ للبہیقی ۔3/396) اس لئے باقی اُمت کے لئے بھی یہی حکم ہے۔اور اسے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ 1۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سند ضعیف قراردیا ہے اور مذید لکھا ہے کہ مذکورہ حدیث کے بعض حصے کے شواہد صحیح بخاری میں ہیں۔جبکہ دیگر محققین نے مذکورہ روایت کوحسن قراردیا ہے۔تفصیل کے لئے دیکھئے۔(الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد 43/8182 والا رواء حدیث 700)لہذا مذکورہ روایت سندا ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔2۔یہ واقعہ 29 صفر 11ھ بروز پیر کا ہے دیکھئے۔(الرحیق المختوم ص 624)یہ اس مرض کی ابتداء تھی۔جس میں رسول اللہ ﷺکی وفات ہوئی۔3۔جسمانی تکلیف کا اظہار توکل اور رضا بالقضا کے منافی نہیں۔4۔خاوند اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے۔اور کفن پہنا سکتا ہے۔بعض علماء نے اس حکم کو رسول اللہﷺ کے ساتھ خاص قرار دیا ہے۔لیکن تخصیص کی کوئی دلیل نہیں۔بلکہ صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمعین کے عمل سے اس کی عمومیت ثابت ہے۔جیسا کہ موطا اوربیہقی کی روایات میں ہے۔(ان اسماء بنت عمیس غسلت ابا بکر حین توفی) ابو بکر کی وفات پر اسماء بنت عمیس نے انھیں غسل دیا (موطا امام مالک الجنائز باب غسل المیت والسنن الکبریٰ للبہقی 3/397)ایسے ہی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق وارد ہے کہ انھوں نے اپنی زوجہ محترمہ فاطمہ بنت رسولﷺ کو انکی وفات پر غسل دیا تھا۔دیکھئے۔(سنن دارقطنی الجنائز باب الصلاۃ علی القبر والسنن الکبریٰ للبہیقی ۔3/396) اس لئے باقی اُمت کے لئے بھی یہی حکم ہے۔اور اسے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص قرار دینا صحیح نہیں ہے۔