كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ مَا جَاءَ فِي غُسْلِ الْمَيِّتِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ نُغَسِّلُ ابْنَتَهُ أُمَّ كُلْثُومٍ فَقَالَ: «اغْسِلْنَهَا ثَلَاثًا، أَوْ خَمْسًا، أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، إِنْ رَأَيْتُنَّ ذَلِكَ، بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ كَافُورًا، أَوْ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ، فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِي» فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ، فَأَلْقَى إِلَيْنَا حَقْوَهُ، وَقَالَ: «أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ»
کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
باب : میت کو غسل دینے کا بیان
ام عطیہ (نسیبہ بنت کعب انصاریہ) ؓا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم رسول اللہ ﷺ کی صاحب زادی ام کلثوم کو غسل دے رہی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے آپ نے فرمایا: ’’اسے پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ تین بار یا پانچ بار غسل دو، اگر ضرور محسوس ہو تو اس سے زیادہ بار غسل دے دینا اور آخربار غسل دیتے وقت پانی میں کافور یا فرمایا: تھوڑا سا کافور ڈال لینا اور جب تم فارغ ہو جاؤ تو اطلاح دینا۔ ‘‘ ہم نے( غسل دینے سے ) فارغ ہو کر آپ ﷺ کو اطلاع دی تو آپ ﷺ نے اپنا تہ بند ہماری طرف پھینک دیا اور فرمایا: ’’اسے اس کے جسم سے متصل پہنا دو۔‘‘
تشریح :
1۔عورت کو عورتیں غسل دیں اور مرد فوت ہوجائے تو اسے مرد ہی غسل دیں۔البتہ خاوند کا بیوی کو اور بیوی کاخاوند کو غسل دینا جائز بلکہ بہترہے۔دیکھئے۔(سنن ابن ماجہ حدیث 1464۔1465)2۔بیری کے پتوں کو پانی میں جوش دیاجائے۔اور اسی پانی سے میت کو غسل دیا جائے۔اس طرح صفائی بہتر ہوتی ہے۔یا آج کل صابن سے بھی یہ مقصد حاصل ہوسکتا ہے۔3۔میت کے جسم پر ایک بار سے زیادہ پانی بہایا جائے۔لیکن تعداد طاق ہو۔4۔کافور کی خوشبو کیڑے مکوڑوں کو دوررکھتی ہے۔میت کے جسم پر آخری بار جو پانی بہایاجائے۔اس میں کافور ڈال لینا چاہیے۔5۔رسول اللہ ﷺ کے لباس سے اوردوسری ایسی اشیاء سے جو نبی اکرمﷺ کے جسم اطہر سے مس ہوئی ہوں۔برکت لینا جائز ہے۔بشرط یہ کہ ان کی نسبت رسول اللہ ﷺ سے یقینی ہو صحابہرضوان للہ عنہم اجمعین وتابعین نے کسی اورشخصیت سے تعلق رکھنے والی اشیاء کو تبرک کے طور پرمحفوظ نہیں کیا۔
1۔عورت کو عورتیں غسل دیں اور مرد فوت ہوجائے تو اسے مرد ہی غسل دیں۔البتہ خاوند کا بیوی کو اور بیوی کاخاوند کو غسل دینا جائز بلکہ بہترہے۔دیکھئے۔(سنن ابن ماجہ حدیث 1464۔1465)2۔بیری کے پتوں کو پانی میں جوش دیاجائے۔اور اسی پانی سے میت کو غسل دیا جائے۔اس طرح صفائی بہتر ہوتی ہے۔یا آج کل صابن سے بھی یہ مقصد حاصل ہوسکتا ہے۔3۔میت کے جسم پر ایک بار سے زیادہ پانی بہایا جائے۔لیکن تعداد طاق ہو۔4۔کافور کی خوشبو کیڑے مکوڑوں کو دوررکھتی ہے۔میت کے جسم پر آخری بار جو پانی بہایاجائے۔اس میں کافور ڈال لینا چاہیے۔5۔رسول اللہ ﷺ کے لباس سے اوردوسری ایسی اشیاء سے جو نبی اکرمﷺ کے جسم اطہر سے مس ہوئی ہوں۔برکت لینا جائز ہے۔بشرط یہ کہ ان کی نسبت رسول اللہ ﷺ سے یقینی ہو صحابہرضوان للہ عنہم اجمعین وتابعین نے کسی اورشخصیت سے تعلق رکھنے والی اشیاء کو تبرک کے طور پرمحفوظ نہیں کیا۔