Book - حدیث 1449

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ مَا جَاءَ فِيمَا يُقَالُ عِنْدَ الْمَرِيضِ إِذَا حُضِرَ ضعیف حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، جَمِيعًا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَمَّا حَضَرَتْ كَعْبًا الْوَفَاةُ أَتَتْهُ أُمُّ بِشْرٍ بِنْتُ الْبَرَاءِ بْنِ مَعْرُورٍ، فَقَالَتْ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنْ لَقِيتَ فُلَانًا، فَاقْرَأْ عَلَيْهِ مِنِّي السَّلَامَ، قَالَ: غَفَرَ اللَّهُ لَكِ يَا أُمَّ بِشْرٍ نَحْنُ أَشْغَلُ مِنْ ذَلِكَ، قَالَتْ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَمَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ أَرْوَاحَ الْمُؤْمِنِينَ فِي طَيْرٍ خُضْرٍ، تَعْلُقُ بِشَجَرِ الْجَنَّةِ» قَالَ: بَلَى، قَالَتْ: فَهُوَ ذَاكَ

ترجمہ Book - حدیث 1449

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب : قریب الوفات بیمار کے پاس کیا کہا جائے ؟ عبدالرحمن بن کعب بن مالک اپنے والد کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ جب کعب ؓ کی وفات کا وقت آیا( اور موت کے آثار ظاہر ہونے لگے) تو براء بن معرور ؓ کی بیٹی ام بشر ؓا ان کے پاس آئیں اور کہا: اے ابو عبدالرحمن (کعب بن مالک) ! اگر ( عالم ارواح مین) فلاں سے( حضرت بشر ؓ سے) آپ کی ملاقات ہو تو اسے میرا سلام کہہ دیجئے گا، انہوں نے کہا: ام بشر ! اللہ آپ کی مغفرت کرے، ہمیں اتنی فرصت کہاں ہوگی؟ ام بشر ؓ نے کہا: ابو عبدالرحمن ! کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے یہ ارشاد مبارک نہیں سنا: ’’مومنوں کی روحیں سبز پرندوں میں ہیں، جنت کے درختوں سے( پھل) کھاتی ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا: ہاں( یہ تو سنا ہے۔) انہوں نے کہا: میرا بھی یہی مطلب ہے۔
تشریح : 1۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداضعیف قرار دیا ہے۔اور مزید لکھا ہے کہ آئندہ آنے والی حدیث (4271)اس سے کفایت کرتی ہے۔لہذا موجودہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔2۔میت کو جنت میں اس کے درجے کے مطابق نیا جسم مل جاتا ہے۔3۔جنت کی راحت اور جہنم کاعذاب مرنے کے بعد شروع ہوجاتا ہے۔4۔ان معاملات کاتعلق عالم غیب سے ہے۔جو اس دنیا سے بالکل مختلف جہان ہے۔اس کے حالات کو دنیا کے حالات کی روشنی میں سمجھنا ممکن نہیں۔اس لئے جتنی بات قرآن وحدیث سے ثابت ہو۔اس پر ایمان رکھنا چاہیے۔اس کی کیفیت کی بحث میں نہیں پڑھنا چاہیے۔ 1۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداضعیف قرار دیا ہے۔اور مزید لکھا ہے کہ آئندہ آنے والی حدیث (4271)اس سے کفایت کرتی ہے۔لہذا موجودہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔2۔میت کو جنت میں اس کے درجے کے مطابق نیا جسم مل جاتا ہے۔3۔جنت کی راحت اور جہنم کاعذاب مرنے کے بعد شروع ہوجاتا ہے۔4۔ان معاملات کاتعلق عالم غیب سے ہے۔جو اس دنیا سے بالکل مختلف جہان ہے۔اس کے حالات کو دنیا کے حالات کی روشنی میں سمجھنا ممکن نہیں۔اس لئے جتنی بات قرآن وحدیث سے ثابت ہو۔اس پر ایمان رکھنا چاہیے۔اس کی کیفیت کی بحث میں نہیں پڑھنا چاہیے۔