Book - حدیث 1444

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ مَا جَاءَ فِي تَلْقِينِ الْمَيِّتِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَقِّنُوا مَوْتَاكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ»

ترجمہ Book - حدیث 1444

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب : مرنے والے کو لاالہ اللہ کی تلقین کرنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اپنے مرنے والوں کو( لا الہ الا اللہ) کی تلقین کرو۔‘‘
تشریح : 1۔اس حدیث میں مرنے والے سے مراد قریب الوفات شخص ہے۔2۔تلقین سے عام طور پر علماء نے یہ مراد لیا ہے۔ کہ قریب الوفات شخص کے پاس(لاالٰہ الا اللہ ) پڑھا جائے۔تاکہ وہ بھی سن کر پڑھ لے۔علامہ محمد فواد عبد لباقی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح مسلم کے حاشیہ میں یہی فرمایا ہے۔دیکھئے(صحیح مسلم الجنائز باب تلقین الموتیٰ لا الٰہ الا اللہ)نواب وحید الزمان خان نے سنن ابن ماجہ کے حاشیہ میں اس مقام پر فرمایا مستحب ہے کہ میت یعنی جومر رہا ہو۔اس کو نرمی سے یہ کلمہ یاد دلائیں۔اور زیادہ اصرار نہ کریں۔ایسا نہ ہوکہ انکار کر بیٹھے۔ البتہ علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے اس سے مختلف ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ تلقین سے مراد کلمہ توحید پڑھ کر صرف سنانا ہی نہیں بلکہ اس سے کہا جائے وہ بھی پڑھے۔اس کی دلیل میں انھوں نے یہ حدیث پیش کی ہے۔جس کے الفاظ یہ ہیں۔رسول اللہ ﷺ ایک انصاری کی عیادت کوتشریف لے گئے تو فرمایا ماموں جان!(لا الٰہ الا اللہ )کہیے۔ اس نے کہا میں ماموں ہوںیا چچا؟ آپ نے فرمایا بلکہ ماموں اس نے کہاتو (لاالٰہ الااللہ ) کہنا میرے لئے بہتر ہے؟آپ ﷺنے فرمایا ہاں (مسند احمد 3/152)3۔اس حدیث سے دفن کے بعد تلقین مراد لینا درست نہیں کیونکہ نبی کریمﷺ نے ایسے نہیں کیا اور نہ کسی صحابی سے صحیح سند سے یہ عمل مروی ہے۔لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔البتہ دفن کے بعد میت کے حق میں استقامت کی دعا کرنامسنون ہے۔(سنن ابی دائود۔الجنائز باب الاستغفار عند القبر للمیت فی وقت الانصراف حدیث 3231) 1۔اس حدیث میں مرنے والے سے مراد قریب الوفات شخص ہے۔2۔تلقین سے عام طور پر علماء نے یہ مراد لیا ہے۔ کہ قریب الوفات شخص کے پاس(لاالٰہ الا اللہ ) پڑھا جائے۔تاکہ وہ بھی سن کر پڑھ لے۔علامہ محمد فواد عبد لباقی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح مسلم کے حاشیہ میں یہی فرمایا ہے۔دیکھئے(صحیح مسلم الجنائز باب تلقین الموتیٰ لا الٰہ الا اللہ)نواب وحید الزمان خان نے سنن ابن ماجہ کے حاشیہ میں اس مقام پر فرمایا مستحب ہے کہ میت یعنی جومر رہا ہو۔اس کو نرمی سے یہ کلمہ یاد دلائیں۔اور زیادہ اصرار نہ کریں۔ایسا نہ ہوکہ انکار کر بیٹھے۔ البتہ علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے اس سے مختلف ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ تلقین سے مراد کلمہ توحید پڑھ کر صرف سنانا ہی نہیں بلکہ اس سے کہا جائے وہ بھی پڑھے۔اس کی دلیل میں انھوں نے یہ حدیث پیش کی ہے۔جس کے الفاظ یہ ہیں۔رسول اللہ ﷺ ایک انصاری کی عیادت کوتشریف لے گئے تو فرمایا ماموں جان!(لا الٰہ الا اللہ )کہیے۔ اس نے کہا میں ماموں ہوںیا چچا؟ آپ نے فرمایا بلکہ ماموں اس نے کہاتو (لاالٰہ الااللہ ) کہنا میرے لئے بہتر ہے؟آپ ﷺنے فرمایا ہاں (مسند احمد 3/152)3۔اس حدیث سے دفن کے بعد تلقین مراد لینا درست نہیں کیونکہ نبی کریمﷺ نے ایسے نہیں کیا اور نہ کسی صحابی سے صحیح سند سے یہ عمل مروی ہے۔لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔البتہ دفن کے بعد میت کے حق میں استقامت کی دعا کرنامسنون ہے۔(سنن ابی دائود۔الجنائز باب الاستغفار عند القبر للمیت فی وقت الانصراف حدیث 3231)