Book - حدیث 143

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ فَضْلُ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ ابْنَيْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍؓ حسن حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي عَوْفٍ أَبِي الْجَحَّافِ، وَكَانَ مَرْضِيًّا، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَحَبَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِي»

ترجمہ Book - حدیث 143

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: حضرت حسن اور حضرت حسین بن علیؓ کے فضائل حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’ جس نے حسن اور حسین ؓ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔‘‘
تشریح : (1) حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے نواسے تھے۔ اور نبی علیہ السلام سے محبت کا تقاضا ہے کہ ان کے پیاروں سے بھی پیار ہو۔ اسی وجہ سے دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے محبت بھی ایمان کا جز ہے۔ اور ان کے بارے میں دل میں نا مناسب جذبات رکھنا ایمان کے منافی ہے۔ (2) اہل بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے محبت صرف زبانی دعوے والی چیز نہیں، بلکہ ان کے اسوہ پر عمل کرنا اصل محبت ہے۔ (3) کسی بھی صحابی سے سرزدہونے والی اجتہادی غلطیوں کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف باتیں کرنا یا ان کی معمولی لغزشوں کو بڑے جرائم باور کرانے کی کوشش کرنا درست نہیں۔ جس طرح بعض لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر عائد کیے گئے غلط الزامات کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کرنے والے مفسدین کا موقف درست ثابت کرنا چاہا ہے۔ اس کے برعکس بعض دوسرے لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ خوارج نے حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں کو کافر قرار دیا، یہ سب غلط ہیں۔ صحابہ کرام کا اختلاف اجتہادی اختلاف تھا جس میں غلطی پر بھی ثواب ہے۔ اس موضؤع پر ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب العواصم من القواصم کا مطالعہ مفید ہے۔ اردو میں خلافت و ملوکیت کی تاریخی و شرعی حیثیت۔ (مصنف حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ) کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ (1) حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے نواسے تھے۔ اور نبی علیہ السلام سے محبت کا تقاضا ہے کہ ان کے پیاروں سے بھی پیار ہو۔ اسی وجہ سے دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے محبت بھی ایمان کا جز ہے۔ اور ان کے بارے میں دل میں نا مناسب جذبات رکھنا ایمان کے منافی ہے۔ (2) اہل بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے محبت صرف زبانی دعوے والی چیز نہیں، بلکہ ان کے اسوہ پر عمل کرنا اصل محبت ہے۔ (3) کسی بھی صحابی سے سرزدہونے والی اجتہادی غلطیوں کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف باتیں کرنا یا ان کی معمولی لغزشوں کو بڑے جرائم باور کرانے کی کوشش کرنا درست نہیں۔ جس طرح بعض لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر عائد کیے گئے غلط الزامات کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کرنے والے مفسدین کا موقف درست ثابت کرنا چاہا ہے۔ اس کے برعکس بعض دوسرے لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ خوارج نے حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں کو کافر قرار دیا، یہ سب غلط ہیں۔ صحابہ کرام کا اختلاف اجتہادی اختلاف تھا جس میں غلطی پر بھی ثواب ہے۔ اس موضؤع پر ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب العواصم من القواصم کا مطالعہ مفید ہے۔ اردو میں خلافت و ملوکیت کی تاریخی و شرعی حیثیت۔ (مصنف حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ) کا مطالعہ کرنا چاہیے۔