Book - حدیث 1414

كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابُ مَا جَاءَ فِي بَدْءِ شَأْنِ الْمِنْبَرِ حسن حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقِّيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو الرَّقِّيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنِ الطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي إِلَى جِذْعٍ إِذْ كَانَ الْمَسْجِدُ عَرِيشًا، وَكَانَ يَخْطُبُ إِلَى ذَلِكَ الْجِذْعِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: هَلْ لَكَ أَنْ نَجْعَلَ لَكَ شَيْئًا تَقُومُ عَلَيْهِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ حَتَّى يَرَاكَ النَّاسُ وَتُسْمِعَهُمْ خُطْبَتَكَ؟ قَالَ: «نَعَمْ» فَصَنَعَ لَهُ ثَلَاثَ دَرَجَاتٍ، فَهِيَ الَّتِي أَعْلَى الْمِنْبَرِ، فَلَمَّا وُضِعَ الْمِنْبَرُ، وَضَعُوهُ فِي مَوْضِعِهِ الَّذِي هُوَ فِيهِ، فَلَمَّا أَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقُومَ إِلَى الْمِنْبَرِ، مَرَّ إِلَى الْجِذْعِ الَّذِي كَانَ يَخْطُبُ إِلَيْهِ، فَلَمَّا جَاوَزَ الْجِذْعَ، خَارَ حَتَّى تَصَدَّعَ وَانْشَقَّ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا سَمِعَ صَوْتَ الْجِذْعِ، فَمَسَحَهُ بِيَدِهِ حَتَّى سَكَنَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْمِنْبَرِ، فَكَانَ إِذَا صَلَّى، صَلَّى إِلَيْهِ، فَلَمَّا هُدِمَ الْمَسْجِدُ وَغُيِّرَ أَخَذَ ذَلِكَ الْجِذْعَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَكَانَ عِنْدَهُ فِي بَيْتِهِ حَتَّى بَلِيَ، فَأَكَلَتْهُ الْأَرَضَةُ وَعَادَ رُفَاتًا

ترجمہ Book - حدیث 1414

کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ باب: سب سے پہلے منبر کیسے بنا ؟ ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: جب مسجد نبوی ایک چھپر کی صورت میں تھی تو رسول اللہ ﷺ کھجور کے ایک تنے کی طرف ( منہ کر کے) نماز پڑھا کرتے تھے اور اسی تنے سے ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے۔ ایک صحابی نے عرض کیا: کیا ہم آپ کے لیے کوئی ایسی چیز نہ بنا دیں جس پر آپ جمعے کے دن (خطبہ دینے کے لیے) کھڑے ہوا کریں تاکہ لوگ آپ کی طرف متوجہ ہو سکیں اور آپ کا خطبہ (اچھی طرح) سن سکیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ اس نے آپ کے لیے( منبر کے) تین درجے بنا دیے۔ وہی( تین سیڑھایاں) اب(موجود) منبر کا سب سے بالائی حصہ ہے۔ جب منبر تیار ہوگیا تو صحابہ کرام نے اسے اسی مقام پر رکھا جہاں وہ اب ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ اٹھ کر منبر پر جانے لگے تو اس تنے کے پاس سے گزرے جس سے ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے۔ جب آپ اس سے آگے بڑھے تو وہ زور زور سے رونے لگا حتی کہ ( شدتِ غم سے) اس کی آواز پھٹ گئی۔ جب رسول اللہ ﷺ نے تنے( کے رونے ) کی آواز سنی تو (منبر سے) نیچے تشریف لے آئے ، اس( تنے) پر ہاتھ پھیرتے رہے حتی کہ وہ خاموش ہوگیا۔ اس کے بعد آپ پھر منبر پر تشریف لے گئے۔ آپ جب نماز پڑھتے تھے تو اس کے پیچھے نماز پڑھتے تھے ۔جب مسجد نبوی کو( دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے) منہدم کیا گیا اور مسجد کی عمارت میں تبدیلی( اور توسیع) کی گئی تو تنا ابی بن کعب ؓ نے لے لیا، وہ ان کے پاس ان کے گھر ہی میں رہا حتی کہ بہت پرانا ہوگیا، پھر اسے دیمک نے کھالیا اور وہ ریزہ ریزہ ہوگیا۔
تشریح : 1۔خطبہ کھڑے ہوکر دینا مسنون ہے۔2۔خطبہ منبر پر دینا چاہیے۔3۔بڑھئی کا پیشہ ایک جائز پیشہ ہے۔4۔بعض روایات میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک انصاری خاتون سے کہا تھا کہ اپنے غلام سے منبر بنوا دو اس نے بنوادیا۔ممکن ہے پہلے کسی مرد نے یہ تجویز پیش کی ہو۔اس کے بعد اس غلام سے کہا گیا ہو۔اور بعد میں رسول اللہﷺ نے خود بھی انصاری خاتون کویاد دہانی کرادی ہو۔واللہ اعلم۔5۔امام اور قائد کومتبعین کی اچھی رائے قبول کرنی چاہیے۔6۔جب منبر پہلے پہل بنایا گیا تو اس کے تین درجے تھے۔نبی کریمﷺ کے بعد اس کے نیچے مذید درجات کااضافہ کرکے اسے مزید بلند کردیا گیا۔7۔بظاہر بے جان نظرآنے والی چیزوں میں شعور اور احساس موجود ہے۔لیکن ہم اسے محسوس نہیں کرسکتے۔8۔کھجور کے تنے کا اس آواز سے رونا کہ سب لوگ سنیں۔ایک معجزہ ہے۔9۔رسول للہ ﷺ سے تعلق رکھنے والی اشیاء کوتبرک کےطور پرمحفوظ رکھنادرست ہے۔بشرط یہ کہ اس نسبت کی صحت کایقین ہو۔10۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سندا ضعیف قرار دیا ہے۔ جبکہ دیگر محققین مثلا شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے حسن اور الموسوعۃ الحدیثیۃ کے محققین نے اسے صحیح لغیرہ قرار دیا ہے۔نیز انھوں نے کافی تفصیل سے اس روایت کو بابت لکھا ہے دیکھئے۔(الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد 35/171/172)لہذا مذکورہ روایت سندا ً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ 1۔خطبہ کھڑے ہوکر دینا مسنون ہے۔2۔خطبہ منبر پر دینا چاہیے۔3۔بڑھئی کا پیشہ ایک جائز پیشہ ہے۔4۔بعض روایات میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک انصاری خاتون سے کہا تھا کہ اپنے غلام سے منبر بنوا دو اس نے بنوادیا۔ممکن ہے پہلے کسی مرد نے یہ تجویز پیش کی ہو۔اس کے بعد اس غلام سے کہا گیا ہو۔اور بعد میں رسول اللہﷺ نے خود بھی انصاری خاتون کویاد دہانی کرادی ہو۔واللہ اعلم۔5۔امام اور قائد کومتبعین کی اچھی رائے قبول کرنی چاہیے۔6۔جب منبر پہلے پہل بنایا گیا تو اس کے تین درجے تھے۔نبی کریمﷺ کے بعد اس کے نیچے مذید درجات کااضافہ کرکے اسے مزید بلند کردیا گیا۔7۔بظاہر بے جان نظرآنے والی چیزوں میں شعور اور احساس موجود ہے۔لیکن ہم اسے محسوس نہیں کرسکتے۔8۔کھجور کے تنے کا اس آواز سے رونا کہ سب لوگ سنیں۔ایک معجزہ ہے۔9۔رسول للہ ﷺ سے تعلق رکھنے والی اشیاء کوتبرک کےطور پرمحفوظ رکھنادرست ہے۔بشرط یہ کہ اس نسبت کی صحت کایقین ہو۔10۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سندا ضعیف قرار دیا ہے۔ جبکہ دیگر محققین مثلا شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے حسن اور الموسوعۃ الحدیثیۃ کے محققین نے اسے صحیح لغیرہ قرار دیا ہے۔نیز انھوں نے کافی تفصیل سے اس روایت کو بابت لکھا ہے دیکھئے۔(الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد 35/171/172)لہذا مذکورہ روایت سندا ً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔