كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابُ مَا جَاءَ فِي فَرْضِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ وَالْمُحَافَظَةِ عَلَيْهَا صحیح حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ الْمِصْرِيُّ أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ فِي الْمَسْجِدِ دَخَلَ رَجُلٌ عَلَى جَمَلٍ فَأَنَاخَهُ فِي الْمَسْجِدِ ثُمَّ عَقَلَهُ ثُمَّ قَالَ لَهُمْ أَيُّكُمْ مُحَمَّدٌ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ قَالَ فَقَالُوا هَذَا الرَّجُلُ الْأَبْيَضُ الْمُتَّكِئُ فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ يَا ابْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَجَبْتُكَ فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي سَائِلُكَ وَمُشَدِّدٌ عَلَيْكَ فِي الْمَسْأَلَةِ فَلَا تَجِدَنَّ عَلَيَّ فِي نَفْسِكَ فَقَالَ سَلْ مَا بَدَا لَكَ قَالَ لَهُ الرَّجُلُ نَشَدْتُكَ بِرَبِّكَ وَرَبِّ مَنْ قَبْلَكَ آللَّهُ أَرْسَلَكَ إِلَى النَّاسِ كُلِّهِمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ تُصَلِّيَ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ تَصُومَ هَذَا الشَّهْرَ مِنْ السَّنَةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ تَأْخُذَ هَذِهِ الصَّدَقَةَ مِنْ أَغْنِيَائِنَا فَتَقْسِمَهَا عَلَى فُقَرَائِنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ نَعَمْ فَقَالَ الرَّجُلُ آمَنْتُ بِمَا جِئْتَ بِهِ وَأَنَا رَسُولُ مَنْ وَرَائِي مِنْ قَوْمِي وَأَنَا ضِمَامُ بْنُ ثَعْلَبَةَ أَخُو بَنِي سَعْدِ ابْنِ بَكْرٍ
کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ
باب: پانچ نمازوں کی فرضیت اور محافظت کا بیان
انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ہم مسجد میں بیٹھتے تھے کہ اسی اثنا میں ایک آدمی اونٹ پر سوار ہو کر مسجد میں داخل ہوا۔ اس نے مسجد میں اونٹ بٹھایا ،اس کا گھٹنا باندھا ، پھر کہا: آپ لوگوں میں محمد(ﷺ) کون ہیں؟ رسول اللہ ﷺ صحابہ کی مجلس میں ٹیک لگائے تشریف فر تھے۔ انہوں نے کہا: یہ سفید فام جو ٹیک لگا کر تشریف فر ہیں۔ اس آدمی نے کہا: عبدالمطلب کے بیٹے! نبی ﷺ نے فرمایا: ’’(بات کرو) جواب دے رہا ہوں۔ ‘‘ اس آدمی نے کہا: اے محمد! میں آپ سے کچھ دریافت کروں گا اور سوال میں سختی ہوگی، آپ دل میں (ناراضگی) محسوس نہ کیجئے گا۔ آپ نے فرمایا: ’’جو چاہا پوچھ لو۔‘‘ آدمی نے کہا: آپ کو آپ کے رب کی اور آپ سے پہلے لوگوں کے رب کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ کو اللہ نے سب لوگوں کی طرف بھیجا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ گواہ ہے، ہاں( یہی بات ہے۔‘‘) اس نے کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا اللہ نے آپ کو رات دن میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ گواہ ہے، ہاں( ایسا ہی ہے۔‘‘) اس نے کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ کو اللہ نے سال میں اسے مہینے( رمضان ) کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ گواہ ہے، ہاں۔ ‘‘ اس نے کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ ہمارے دولت مندوں سے یہ صدقہ( زکاة) لے کر ہمارے غریبوں میں تقسیم فرمائیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ گواہ ہے، ہاں۔‘‘ اس شخص نے کہا: میں آپ کی لائی ہوئی( شریعت) پر ایمان لے آیا ہوں اور میں اپنے پیچھے اپنی قوم کی افراد کی طرف سے پیغام رساں بن کر آیا ہوں۔ میں بنو سعد بن بکر( قبیلہ) کا ایک فرد ضمام بن ثعلبہ ہوں۔
تشریح :
1۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد سادہ اور کچی تھی۔اس لئے اونٹ وغیرہ کے آنے سے منع نہیں کیا گیا۔ممکن ہے اونٹوں کے بٹھانے کے لئے جگہ مخصوص ہو۔اس بنا پرآجکل مسجد کے ساتھ سائیکلوں سکوٹروں اور گارڑیوں وغیرہ کے لئے جگہ خاص کی جاسکتی ہے۔2۔مجلس میں معزز شخصیت کے لئے نمایاں نشست مخصوص کی جاسکتی ہے۔ تاکہ آنے والے اجنبیوں کو پہچاننے میں مشکل نہ ہو۔3۔اگر سوا ل کرتے ہوئے ادب و احترام کا مناسب خیال نہ رکھ سکے۔تو عالم کو چاہیے کہ ناراضی محسوس نہ کرے۔4۔ایک راوی کی روایت(خبر واحد) قابل قبول ہے۔جب کہ وہ راوی قابل اعتماد (ثقہ ) ہو۔5۔عالم کے پاس سفر کرکے جانا اور اس سے مسائل کی تحقیق کرنا مستحسن ہے۔6۔نازل سند کے ساتھ حدیث معلوم ہو تو عالی سند حاصل کرنے کی کوشش کرنا اچھی بات ہے۔7۔قراءت علی الشیخ بھی حصول علم کا ایک درست طریقہ ہے۔8۔جب قوم کسی فرد کو اپنا نمائندہ منتخب کرلے تو پھر ا س کی کاروائی پر اعتماد کرنا چاہے۔الا یہ کہ اس سے واضح غلطی سرزد ہوجائے۔
1۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد سادہ اور کچی تھی۔اس لئے اونٹ وغیرہ کے آنے سے منع نہیں کیا گیا۔ممکن ہے اونٹوں کے بٹھانے کے لئے جگہ مخصوص ہو۔اس بنا پرآجکل مسجد کے ساتھ سائیکلوں سکوٹروں اور گارڑیوں وغیرہ کے لئے جگہ خاص کی جاسکتی ہے۔2۔مجلس میں معزز شخصیت کے لئے نمایاں نشست مخصوص کی جاسکتی ہے۔ تاکہ آنے والے اجنبیوں کو پہچاننے میں مشکل نہ ہو۔3۔اگر سوا ل کرتے ہوئے ادب و احترام کا مناسب خیال نہ رکھ سکے۔تو عالم کو چاہیے کہ ناراضی محسوس نہ کرے۔4۔ایک راوی کی روایت(خبر واحد) قابل قبول ہے۔جب کہ وہ راوی قابل اعتماد (ثقہ ) ہو۔5۔عالم کے پاس سفر کرکے جانا اور اس سے مسائل کی تحقیق کرنا مستحسن ہے۔6۔نازل سند کے ساتھ حدیث معلوم ہو تو عالی سند حاصل کرنے کی کوشش کرنا اچھی بات ہے۔7۔قراءت علی الشیخ بھی حصول علم کا ایک درست طریقہ ہے۔8۔جب قوم کسی فرد کو اپنا نمائندہ منتخب کرلے تو پھر ا س کی کاروائی پر اعتماد کرنا چاہے۔الا یہ کہ اس سے واضح غلطی سرزد ہوجائے۔