كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ تَعْظِيمِ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِﷺ وَالتَّغْلِيظِ عَلَى مَنْ عَارَضَهُ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ
کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت
باب: حدیث رسول ﷺ کی تعظیم اور اس کی مخالفت کرنے والے پر سختی کرنے کا بیان
حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓا سے روایت ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:‘‘جو شخص ہمارے دین میں وہ چیز ایجاد کرے جو(اصل میں) اس میں(شامل) نہیں ہے، تو وہ مردود ہے۔’’
تشریح :
(1) (في امرنا) سے مراد، دینی اور شرعی معاملات ہیں یا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام ہیں، اس لیے ہم نے اس کا ترجمہ دین کیا ہے۔ دین کے جو معاملات عبادات یا عقائد سے تعلق رکھتے ہیں ان میں اپنی رائے سے کمی بیشی کرنا بدعت کہلاتا ہے۔ اسی کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بدعت گمراہی ہے۔ (صحيح مسلم‘ الجمعة‘ باب تخفيف الصلاة والخطبة‘ حديث:867) دنیوی معاملات، مثلا لباس کے مختلف انداز، کھانا پکانے کے علاقائی طریقے یا کاشت کاری کے جدید آلات کا استعمال ان کا شرعی بدعت سے تعلق نہیں۔ لیکن ان میں وہ کام بہرحال منع ہوں گے جو شریعت کے بیان کردہ عام اصولوں کے خلاف ہوں، مثلا ایسا لباس جو پردہ کے بنیادی مقصد کو پورا نہ کرت، یا غیر مسلموں کا لباس سمجھا جاتا ہو، وغیرہ (2) (فهو رد) وہ ناقابل قبول ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو یہ عمل قبول نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کی تردید اور اس سے منع کرنا چاہیے۔ یا یہ مطلب ہے کہ اللہ کے ہاں قبول نہیں ہو گا اور اس پر ثواب کے بجائے گناہ ہو گا۔ (3) وہ کام، جس سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاص وجہ سے اجتناب فرمایا ہو۔درآں حالیکہ آپ اس کی خواہش رکھتے ہوں، وہ بنیادی طور پر جائز ہوتا ہے، جب وہ رکاوٹ دور ہو جائے تو اسے انجام دینا بدعت میں شامل نہیں ہو گا۔ مثلا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پورے ماہ رمضان میں نماز تراویح پڑھانے سے اجتناب، تاکہ وہ فرض نہ ہو جائے، یا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں قرآن مجید کو ایک نسخہ کی صورت میں جمع نہ کرنا، کیونکہ ہر وقت نئی آیات نازل ہونے یا کسی پہلی آیت کے منسوخ ہونے کا امکان موجود تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو یہ امکان باقی نہ رہا، اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے قرآن مجید کا ایک مستند نسخہ تیار کر لیا۔ اور حجرت عمر رضی اللہ عنہ نے نماز ترایح کا باجماعت اہتمام کرنے کا حکم دیا۔
(1) (في امرنا) سے مراد، دینی اور شرعی معاملات ہیں یا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام ہیں، اس لیے ہم نے اس کا ترجمہ دین کیا ہے۔ دین کے جو معاملات عبادات یا عقائد سے تعلق رکھتے ہیں ان میں اپنی رائے سے کمی بیشی کرنا بدعت کہلاتا ہے۔ اسی کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بدعت گمراہی ہے۔ (صحيح مسلم‘ الجمعة‘ باب تخفيف الصلاة والخطبة‘ حديث:867) دنیوی معاملات، مثلا لباس کے مختلف انداز، کھانا پکانے کے علاقائی طریقے یا کاشت کاری کے جدید آلات کا استعمال ان کا شرعی بدعت سے تعلق نہیں۔ لیکن ان میں وہ کام بہرحال منع ہوں گے جو شریعت کے بیان کردہ عام اصولوں کے خلاف ہوں، مثلا ایسا لباس جو پردہ کے بنیادی مقصد کو پورا نہ کرت، یا غیر مسلموں کا لباس سمجھا جاتا ہو، وغیرہ (2) (فهو رد) وہ ناقابل قبول ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو یہ عمل قبول نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کی تردید اور اس سے منع کرنا چاہیے۔ یا یہ مطلب ہے کہ اللہ کے ہاں قبول نہیں ہو گا اور اس پر ثواب کے بجائے گناہ ہو گا۔ (3) وہ کام، جس سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاص وجہ سے اجتناب فرمایا ہو۔درآں حالیکہ آپ اس کی خواہش رکھتے ہوں، وہ بنیادی طور پر جائز ہوتا ہے، جب وہ رکاوٹ دور ہو جائے تو اسے انجام دینا بدعت میں شامل نہیں ہو گا۔ مثلا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پورے ماہ رمضان میں نماز تراویح پڑھانے سے اجتناب، تاکہ وہ فرض نہ ہو جائے، یا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں قرآن مجید کو ایک نسخہ کی صورت میں جمع نہ کرنا، کیونکہ ہر وقت نئی آیات نازل ہونے یا کسی پہلی آیت کے منسوخ ہونے کا امکان موجود تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو یہ امکان باقی نہ رہا، اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے قرآن مجید کا ایک مستند نسخہ تیار کر لیا۔ اور حجرت عمر رضی اللہ عنہ نے نماز ترایح کا باجماعت اہتمام کرنے کا حکم دیا۔