Book - حدیث 1395

كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابُ مَا جَاءَ فِي أَنَّ الصَّلَاةَ كَفَّارَةٌ حسن حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ وَسُفْيَانُ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ الثَّقَفِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ الْوَالِبِيِّ عَنْ أَسْمَاءَ بْنِ الْحَكَمِ الْفَزَارِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ كُنْتُ إِذَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا يَنْفَعُنِي اللَّهُ بِمَا شَاءَ مِنْهُ وَإِذَا حَدَّثَنِي عَنْهُ غَيْرُهُ اسْتَحْلَفْتُهُ فَإِذَا حَلَفَ صَدَّقْتُهُ وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ حَدَّثَنِي وَصَدَقَ أَبُو بَكْرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ رَجُلٍ يُذْنِبُ ذَنْبًا فَيَتَوَضَّأُ فَيُحْسِنُ الْوُضُوءَ ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَقَالَ مِسْعَرٌ ثُمَّ يُصَلِّي وَيَسْتَغْفِرُ اللَّهَ إِلَّا غَفَرَ اللَّهُ لَهُ

ترجمہ Book - حدیث 1395

کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ باب: نماز سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں علی ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں جب رسول اللہ ﷺ کوئی حدیث سنتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے جو فائدہ دینا ہوتا دے دیتا ،اور جب مجھے کوئی آدمی نبی ﷺ کی حدیث سناتا تو میں اس سے قسم لیتا۔ اگروہ قسم کھاتا تو میں اس پر اعتبار کر لیتا۔ اور ابو بکر ؓ نے مجھے حدیث سنائی اور ابو بکر نے سچ فرمایا۔ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو بھی شخص کوئی گناہ کر لیتا ہے پھر اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھتا ہے اور اللہ سے بخشش مانگتا ہے تو اللہ اسے ضرور بخش دیتا ہے۔‘‘
تشریح : 1۔حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم قبول کرنے میں احتیاط اور صحیح غلط میں امتیاز کا عمل صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمعین سے شروع ہوا ہے۔2۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس لئے قسم نہیں لیتے تھے کہ انھیں صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمعین کی روایت پر یقین نہیں تھا۔ بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ دوسرے لوگ حدیث کی اہمیت کو محسوس کریں۔اور وہی حدیث بیان کریں انھیں اچھی طرح یاد ہو۔ اس کے علاوہ یہ فائدہ بھی پیش نظر تھا۔ کہ اگر وہ حدیث کسی کو سنایئں تو پورے اعتماد سے سنایئں کہ حدیث صحیح ہے۔3۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صداقت پراتنا یقین تھا کہ ان کی سنائی ہوئی حدیث بے چون وچرا تسلیم کر لیتے تھے۔4۔وضو اور نماز گناہوں کی معافی کازریعہ ہیں۔ 5۔نماز کے باوجود دل میں نادم ہوتے ہوئے اللہ سے مغفرت کی دعا کرنا ضروری ہے۔البتہ بعض چھوٹے گناہ صرف وضو سے یا صرف نماز سے بھی معاف ہوجاتے ہیں۔ 1۔حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم قبول کرنے میں احتیاط اور صحیح غلط میں امتیاز کا عمل صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمعین سے شروع ہوا ہے۔2۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس لئے قسم نہیں لیتے تھے کہ انھیں صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمعین کی روایت پر یقین نہیں تھا۔ بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ دوسرے لوگ حدیث کی اہمیت کو محسوس کریں۔اور وہی حدیث بیان کریں انھیں اچھی طرح یاد ہو۔ اس کے علاوہ یہ فائدہ بھی پیش نظر تھا۔ کہ اگر وہ حدیث کسی کو سنایئں تو پورے اعتماد سے سنایئں کہ حدیث صحیح ہے۔3۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صداقت پراتنا یقین تھا کہ ان کی سنائی ہوئی حدیث بے چون وچرا تسلیم کر لیتے تھے۔4۔وضو اور نماز گناہوں کی معافی کازریعہ ہیں۔ 5۔نماز کے باوجود دل میں نادم ہوتے ہوئے اللہ سے مغفرت کی دعا کرنا ضروری ہے۔البتہ بعض چھوٹے گناہ صرف وضو سے یا صرف نماز سے بھی معاف ہوجاتے ہیں۔