Book - حدیث 1385

كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابُ مَا جَاءَ فِي صَلَاةِ الْحَاجَةِ صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورِ بْنِ سَيَّارٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْمَدَنِيِّ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ أَنَّ رَجُلًا ضَرِيرَ الْبَصَرِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ادْعُ اللَّهَ لِي أَنْ يُعَافِيَنِي فَقَالَ إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ لَكَ وَهُوَ خَيْرٌ وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ فَقَالَ ادْعُهْ فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوءَهُ وَيُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى اللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِيَّ قَالَ أَبُو إِسْحَقَ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

ترجمہ Book - حدیث 1385

کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ باب: نمازِ حاجت کا بیان عثمان بن حنیف ؓ سے روایت ہے کہ ایک نابینا آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میرے لیے دعا کیجئے کہ اللہ مجھے شفا دے نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تو چاہے تو میں تیرے لیے آخرت کی بھلائی چاہوں اور وہ تیرے لیے بہتر ہے اور اگر تو چاہے تو میں دعا کردوں۔‘‘ اس نے کہا: دعا ہی کر دیجئے۔ نبی ﷺ نے اسے حکم دیا کہ وہ خوب اچھی طرح وضو کر کے دو رکعتیں پڑھے، پھر یہ دعا مانگے:( اللَّهُمَّ إِنِّى أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِمُحَمَّدٍ نَبِىِّ الرَّحْمَةِ يَا مُحَمَّدُ إِنِّى قَدْ تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّى فِى حَاجَتِى هَذِهِ لِتُقْضَى اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِىَّ) ’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور نبی رحمت محمد ﷺ کے ذریعے سے تیری طرف توجہ کرتا ہوں ۔ اے محمد! میں آپ کے ذریعے سے اپنی حاجت کے سلسلے میں اپنے رب کی طرف توجہ کرتا ہوں تاکہ وہ حاجت پوری ہو جائے۔ اے اللہ ! نبی ﷺ کی شفاعت میرے حق میں قبول فرما۔‘‘ ابو اسحاق نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے۔
تشریح : 1۔شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے کسی بندے کے ہاتھ میں نہیں۔ اس لئے شفا کی درخواست اللہ ہی سے کرنی چاہیے2۔کسی نیک بزرگ شخص سے اپنے حق میں دعا کرانا جائز ہے۔3۔بیماری اور مصیبت پر صبر کرنا درجات کی بلندی کاباعث ہے۔ لیکن اس سے نجات کی دعا کرنا بھی توکل اور رضا کے منافی نہیں۔4۔ضرورت پوری ہونے کی نیت سے دو رکعت نفل نماز پڑھنا اور پھر مناسب دعا کرنا اس سے دعا کی قبولیت کی زیادہ اُمید ہوتی ہے۔ 5۔صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم سے شفا کی درخواست نہیں کی۔ بلکہ شفاء کے لئے دعا کرنے کی درخواست کی۔اور خود بھی دعا کی۔گویانبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اس شخص کی دعا کی قبولیت کے لئے تھی۔ اس لئے اسے شفاعت کہاگیا۔6۔بعض لوگوں نے اس حدیث سے رواجی وسیلہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔حالانکہ ا س میں نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو وسیلہ نہیں بنایاگیا۔بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی دعا کو وسیلہ بنایا گیا ہے۔اور یہ پھر نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں تھا۔ وفات کے بعد قبر شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب نہیں کیاگیا۔7۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات کے بعد مخاطب کرنا قرآن مجید کے اس فرمان کے بھی خلاف ہے۔ ( وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ)(الحجرات۔2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلند آواز سےنہ بلائو۔جس طرح تم ایک دوسرے کو بلند آواز سے پکار لیتے ہو بلکہ اس کا ادب بتاتے ہوئے فرمایا۔ ( إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ و َلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّىٰ تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ)(الحجرات 4۔5) جو لوگ حجروں کے باہر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آوازیں دیتے ہیں۔وہ اکثر بے عقل ہوتے ہیں۔ اگر وہ لوگ صبر کریں حتیٰ کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم خود ان کے پاس تشریف لے آیئں۔تو یہ ان کے لئے بہتر ہے۔ اس آیت کاتقاضا یہ ہے کہ حجرہ مبارک میں دفن ہونے کے بعد نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پکارا جائے۔حتیٰ کہ قیامت کو وہ خود باہر تشریف لے آئیں۔ 1۔شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے کسی بندے کے ہاتھ میں نہیں۔ اس لئے شفا کی درخواست اللہ ہی سے کرنی چاہیے2۔کسی نیک بزرگ شخص سے اپنے حق میں دعا کرانا جائز ہے۔3۔بیماری اور مصیبت پر صبر کرنا درجات کی بلندی کاباعث ہے۔ لیکن اس سے نجات کی دعا کرنا بھی توکل اور رضا کے منافی نہیں۔4۔ضرورت پوری ہونے کی نیت سے دو رکعت نفل نماز پڑھنا اور پھر مناسب دعا کرنا اس سے دعا کی قبولیت کی زیادہ اُمید ہوتی ہے۔ 5۔صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم سے شفا کی درخواست نہیں کی۔ بلکہ شفاء کے لئے دعا کرنے کی درخواست کی۔اور خود بھی دعا کی۔گویانبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اس شخص کی دعا کی قبولیت کے لئے تھی۔ اس لئے اسے شفاعت کہاگیا۔6۔بعض لوگوں نے اس حدیث سے رواجی وسیلہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔حالانکہ ا س میں نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو وسیلہ نہیں بنایاگیا۔بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی دعا کو وسیلہ بنایا گیا ہے۔اور یہ پھر نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں تھا۔ وفات کے بعد قبر شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب نہیں کیاگیا۔7۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات کے بعد مخاطب کرنا قرآن مجید کے اس فرمان کے بھی خلاف ہے۔ ( وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ)(الحجرات۔2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلند آواز سےنہ بلائو۔جس طرح تم ایک دوسرے کو بلند آواز سے پکار لیتے ہو بلکہ اس کا ادب بتاتے ہوئے فرمایا۔ ( إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ و َلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّىٰ تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ)(الحجرات 4۔5) جو لوگ حجروں کے باہر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آوازیں دیتے ہیں۔وہ اکثر بے عقل ہوتے ہیں۔ اگر وہ لوگ صبر کریں حتیٰ کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم خود ان کے پاس تشریف لے آیئں۔تو یہ ان کے لئے بہتر ہے۔ اس آیت کاتقاضا یہ ہے کہ حجرہ مبارک میں دفن ہونے کے بعد نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پکارا جائے۔حتیٰ کہ قیامت کو وہ خود باہر تشریف لے آئیں۔