Book - حدیث 1357

كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابُ مَا جَاءَ فِي الدُّعَاءِ إِذَا قَامَ الرَّجُلُ مِنْ اللَّيْلِ حسن حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْيَمَامِيُّ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ بِمَ كَانَ يَسْتَفْتِحُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ إِذَا قَامَ مِنْ اللَّيْلِ قَالَتْ كَانَ يَقُولُ اللَّهُمَّ رَبَّ جِبْرَئِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنْ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ إِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ احْفَظُوهُ جِبْرَئِيلَ مَهْمُوزَةً فَإِنَّهُ كَذَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ Book - حدیث 1357

کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ باب: جب آدمی رات کو قیام کے لیے جاگے تو دعا مانگنا(مسنون ہے) ابو سلمہ بن عبدالرحمن ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے سیدہ عائشہ ؓا سے سوال کیا: نبی ﷺ جب رات کو اٹھتے تھے تو اپنی نماز کس طرح شروع کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: آپ کہتے تھے: (اللَّهُمَّ رَبَّ جِبْرَئِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ اهْدِنِى لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ إِنَّكَ لَتَهْدِى إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ) ’’اے اللہ! اے جبرئیل، میکائیل اور اسرافیل کے مالک! اے آسمانوں اور زمین ک ے خالق ! اے پوشیدہ اور ظاہر( سب چیزوں ) کا علم رکھنے والے! اپنے بندوں میں تو ہی فیصلہ کرے گا جس جس چیز میں وہ اختلاف کرتے تھے۔ حق کے جن مسائل میں اختلاف کیا گیا ہے ان میں مجھے اپنے حکم سے ہدایت نصیب فرما، بے شک تو ہی سیدھی راہ کی طرف ہدایت دیتا ہے۔‘‘ (امام ابن ماجہ ؓ کے استاد) عبدالرحمن بن عمر نے کہا: ( اس دعا میں) جبرئیل کا لفظ ہمزہ کے ساتھ یاد کرو کیوں کہ نبی ﷺ سے اسی طرح مروی ہے ۔
تشریح : 1۔نماز تہجد میں یہ دعا بھی دعائے استفتاح کے طور پر پڑھی جاسکتی ہے۔2۔جبرائیل۔میکائیل۔اور اسرافیل علیہ السلام اللہ کے مقرب ترین اور افضل ترین فرشتے ہیں۔لیکن وہ بھی اللہ کے بندے ہیں۔اور اللہ ان کا بھی رب ہے۔رب کی صفات اور اختیارات میں ان کا بھی کوئی حصہ نہیں۔ توحید کا یہ نکتہ توجہ کے قابل ہے۔3۔بندوں کے اختلافات کا فیصلہ دنیا میں انبیائے کرام علیہ السلام کی بعثت اور ان پر وحی کے نزول کے زریعے سے کردیا گیا ہے۔پھر بھی بعض لوگ نئے نئے شبہات پیدا کرکے اختلاف ڈالتے ہیں۔یا حق واضح ہوجانے کے بعد بھی حق کو قبول نہیں کرتے۔اور جھگرنے سے باز نہیں آتے۔ان کا فیصلہ قیامت ہی کوہوگا۔جب انھیں سزا ملے گی اور نیک لوگ اللہ کے انعامات سے بہرہ ور ہوں گے۔4۔ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔اس لئے اللہ سے ہدایت کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔5۔جبرئیل کالفظ کئی طرح پڑھا جا سکتا ہے۔جبرئیل۔جبرئیل۔جبرئیل جبرئیل۔جبرائیل۔لیکن اس دعا میں جبرئیل ہمزہ کے ساتھ ہے۔6۔محدثین کرام حدیث کےالفاظ پر بھی توجہ دیتے تھے۔اور ہر لفظ اس طرح روایت کرنے کی کوشش کرتے تھے۔جس طرح استاد سے سنا ہو۔حالانکہ روایت بالمعنیٰ جائز ہے۔ محدثین کے اس طرز عمل سے ان کی دیانت اور صداقت ظاہر ہوتی ہے۔اور یہ کہ ان کی روایت کردہ احادیث قابل عمل اور قابل اعتماد ہیں۔بشرط یہ کہ صحت حدیث کے معیار پر پوری اتریں۔ 1۔نماز تہجد میں یہ دعا بھی دعائے استفتاح کے طور پر پڑھی جاسکتی ہے۔2۔جبرائیل۔میکائیل۔اور اسرافیل علیہ السلام اللہ کے مقرب ترین اور افضل ترین فرشتے ہیں۔لیکن وہ بھی اللہ کے بندے ہیں۔اور اللہ ان کا بھی رب ہے۔رب کی صفات اور اختیارات میں ان کا بھی کوئی حصہ نہیں۔ توحید کا یہ نکتہ توجہ کے قابل ہے۔3۔بندوں کے اختلافات کا فیصلہ دنیا میں انبیائے کرام علیہ السلام کی بعثت اور ان پر وحی کے نزول کے زریعے سے کردیا گیا ہے۔پھر بھی بعض لوگ نئے نئے شبہات پیدا کرکے اختلاف ڈالتے ہیں۔یا حق واضح ہوجانے کے بعد بھی حق کو قبول نہیں کرتے۔اور جھگرنے سے باز نہیں آتے۔ان کا فیصلہ قیامت ہی کوہوگا۔جب انھیں سزا ملے گی اور نیک لوگ اللہ کے انعامات سے بہرہ ور ہوں گے۔4۔ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔اس لئے اللہ سے ہدایت کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔5۔جبرئیل کالفظ کئی طرح پڑھا جا سکتا ہے۔جبرئیل۔جبرئیل۔جبرئیل جبرئیل۔جبرائیل۔لیکن اس دعا میں جبرئیل ہمزہ کے ساتھ ہے۔6۔محدثین کرام حدیث کےالفاظ پر بھی توجہ دیتے تھے۔اور ہر لفظ اس طرح روایت کرنے کی کوشش کرتے تھے۔جس طرح استاد سے سنا ہو۔حالانکہ روایت بالمعنیٰ جائز ہے۔ محدثین کے اس طرز عمل سے ان کی دیانت اور صداقت ظاہر ہوتی ہے۔اور یہ کہ ان کی روایت کردہ احادیث قابل عمل اور قابل اعتماد ہیں۔بشرط یہ کہ صحت حدیث کے معیار پر پوری اتریں۔