Book - حدیث 1338

كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابٌ فِي حُسْنِ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ صحیح حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَابِطٍ الْجُمَحِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ أَبْطَأْتُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً بَعْدَ الْعِشَاءِ ثُمَّ جِئْتُ فَقَالَ أَيْنَ كُنْتِ قُلْتُ كُنْتُ أَسْتَمِعُ قِرَاءَةَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِكَ لَمْ أَسْمَعْ مِثْلَ قِرَاءَتِهِ وَصَوْتِهِ مِنْ أَحَدٍ قَالَتْ فَقَامَ وَقُمْتُ مَعَهُ حَتَّى اسْتَمَعَ لَهُ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ فَقَالَ هَذَا سَالِمٌ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي أُمَّتِي مِثْلَ هَذَا

ترجمہ Book - حدیث 1338

کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ باب: خوبصورت آواز سے قرآن مجید کی تلاوت کرنا ام المومنین عائشہ ؓا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں ایک رات عشاء کے بعد مجھے( حاضر خدمت ہونے میں) دیر ہوگئی پھر میں آئی تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’تم کہاں تھیں؟ ‘‘ میں نے کہا: میں آپ کے ایک صحابی کی قراءت سن رہی تھی، میں نے کسی اور کی ایسی ( عمدہ) قراءت اور آواز نہیں سنی۔ ام المومنین نے بیان فرمایا: اللہ کے نبی اٹھ کھڑے ہوئے میں بھی اٹھ کر آپ کے ساتھ گئی حتی کہ آپ ﷺ نے بھی اس کی قراءت سنی، پھر میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ’’یہ ابو حذیفہ ؓ مولیٰ سالم ہیں۔ اللہ کی تعریف ہے ( اور اس کا شکر ہے) جس نے میری امت میں ایسے افراد پیدا فرمائے۔ ‘‘
تشریح : 1۔کوئی شخص تلاوت کر رہا ہو تو خاموشی اور توجہ سے سننا چاہیے۔2۔صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین میں تلاوت سننے کاشوق بہت زیادہ تھا۔3۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمعین سے تلاوت سنتے تھے۔ اس لئے ایک بڑے عالم یا بلند درجہ شخص کوبھی کم درجہ شخص سے تلاوت سننے میں تکلیف نہیں کرنا چاہیے۔4۔عورت اجنبی مرد کی تلاوت اور تقریر سن سکتی ہے۔5۔کسی کو اللہ نے کوئی خوبی عطافرمائی ہو تو اس کی تعریف کرنے میں کوئی حرج نہیں خصوصا جب تعریف اس کی موجودگی میں نہ ہو۔6۔شاگرد کی خوبی استاد کےلئے خوشی کا باعث ہوتی ہے۔اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اسی طرح اولاد کی نیکی خوبی اور کمال پر والدین کو اللہ شکر کرنا چاہیے۔ 1۔کوئی شخص تلاوت کر رہا ہو تو خاموشی اور توجہ سے سننا چاہیے۔2۔صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین میں تلاوت سننے کاشوق بہت زیادہ تھا۔3۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمعین سے تلاوت سنتے تھے۔ اس لئے ایک بڑے عالم یا بلند درجہ شخص کوبھی کم درجہ شخص سے تلاوت سننے میں تکلیف نہیں کرنا چاہیے۔4۔عورت اجنبی مرد کی تلاوت اور تقریر سن سکتی ہے۔5۔کسی کو اللہ نے کوئی خوبی عطافرمائی ہو تو اس کی تعریف کرنے میں کوئی حرج نہیں خصوصا جب تعریف اس کی موجودگی میں نہ ہو۔6۔شاگرد کی خوبی استاد کےلئے خوشی کا باعث ہوتی ہے۔اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اسی طرح اولاد کی نیکی خوبی اور کمال پر والدین کو اللہ شکر کرنا چاہیے۔