Book - حدیث 1337

كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابٌ فِي حُسْنِ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ ضعیف حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَشِيرِ بْنِ ذَكْوَانَ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا أَبُو رَافِعٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ السَّائِبِ قَالَ قَدِمَ عَلَيْنَا سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَقَدْ كُفَّ بَصَرُهُ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ مَنْ أَنْتَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ مَرْحَبًا بِابْنِ أَخِي بَلَغَنِي أَنَّكَ حَسَنُ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ نَزَلَ بِحُزْنٍ فَإِذَا قَرَأْتُمُوهُ فَابْكُوا فَإِنْ لَمْ تَبْكُوا فَتَبَاكَوْا وَتَغَنَّوْا بِهِ فَمَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِهِ فَلَيْسَ مِنَّا

ترجمہ Book - حدیث 1337

کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ باب: خوبصورت آواز سے قرآن مجید کی تلاوت کرنا سیدنا عبدالرحمن بن سائب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: سعد بن ابی وقاص ؓ ہمارے ہاں تشریف لائے، اس وقت ان کی بینائی ختم ہو چکی تھی۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے فرمایا: تم کون ہو؟ میں نے بتایا( کہ عبدالرحمن بن سائب ہوں) تو فرمایا: بھتیجے کو خوش آمدید ؟ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم قرآن مجید کی تلاوت بڑی عمدہ آواز سے کرتے ہو۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ ارشاد مبارک سنا ہے: ’’یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا ہے، جب تم اسے پڑھو تو رویا کرو، رونا نہ آئے تو تکلف سے روؤو اور اسے اچھی آواز سے پڑھو۔ جو اسے اچھی آواز سے ( تجوید کے اصولوں کے مطابق) نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘
تشریح : 1۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل مھقق نے سندا ً ضعیف قرار دیا ہے۔نیز دیگر محققین نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔تاہم دکتور بشار عواد سنن ابن ماجہ کی تحقیق میں لکھتے ہیں۔کہ مذکورہ روایت سنداً تو ضعیف ہے۔لیکن اس کا آخری جملہ(وتغنو ابه فمن لم يتغن به فليس منا) اور قرآن مجید کواچھی آواز سے پڑھو صحیح ہے کیونکہ یہی مسئلہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے۔کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔(ليس منا من لم يتغن بالقرآن) جوشخص قرآن کو خوش الحانی سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں لہذا اس جملے کے سوا باقی روایت سندا ضعیف ہے۔تفصیل کے لئے دیکھئے۔(سنن ابن ماجہ للدکتور بشا ر عواد حدیث 1337)2۔اس حدیث کے آخری جملے (وتغنو ابه فمن لم يتغن) کا ایک دوسرا مفہوم بھی ہے۔جسے علامہ خطابی نے زکر کیا ہے۔ لم يتغن بمعنی لم يستغن ہے۔ یعنی جو شخص قرآن مجید پڑھ کر اس کا علم حاصل کرکے طلب دنیا اوردیگر لا یعنی علوم بالخصوص لغو قسم کے شعر وسخن سے بے پرواہ نہ ہوجائے۔تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔(معالم السنن 2/138)مقصد یہ ہے کہ قاری قرآن اور عالم دین کو چاہیے کہ اس شرف کے حاصل ہوجانے پر دنیا کا مال ودولت جمع کرنے اور لغو مشاغل سے بالاتر رہے۔ 1۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل مھقق نے سندا ً ضعیف قرار دیا ہے۔نیز دیگر محققین نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔تاہم دکتور بشار عواد سنن ابن ماجہ کی تحقیق میں لکھتے ہیں۔کہ مذکورہ روایت سنداً تو ضعیف ہے۔لیکن اس کا آخری جملہ(وتغنو ابه فمن لم يتغن به فليس منا) اور قرآن مجید کواچھی آواز سے پڑھو صحیح ہے کیونکہ یہی مسئلہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے۔کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔(ليس منا من لم يتغن بالقرآن) جوشخص قرآن کو خوش الحانی سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں لہذا اس جملے کے سوا باقی روایت سندا ضعیف ہے۔تفصیل کے لئے دیکھئے۔(سنن ابن ماجہ للدکتور بشا ر عواد حدیث 1337)2۔اس حدیث کے آخری جملے (وتغنو ابه فمن لم يتغن) کا ایک دوسرا مفہوم بھی ہے۔جسے علامہ خطابی نے زکر کیا ہے۔ لم يتغن بمعنی لم يستغن ہے۔ یعنی جو شخص قرآن مجید پڑھ کر اس کا علم حاصل کرکے طلب دنیا اوردیگر لا یعنی علوم بالخصوص لغو قسم کے شعر وسخن سے بے پرواہ نہ ہوجائے۔تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔(معالم السنن 2/138)مقصد یہ ہے کہ قاری قرآن اور عالم دین کو چاہیے کہ اس شرف کے حاصل ہوجانے پر دنیا کا مال ودولت جمع کرنے اور لغو مشاغل سے بالاتر رہے۔