Book - حدیث 1327

كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابُ مَا جَاءَ فِي قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ حَدَّثَنَا مَسْلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُرَشِيِّ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَضَانَ فَلَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنْهُ حَتَّى بَقِيَ سَبْعُ لَيَالٍ فَقَامَ بِنَا لَيْلَةَ السَّابِعَةِ حَتَّى مَضَى نَحْوٌ مِنْ ثُلُثِ اللَّيْلِ ثُمَّ كَانَتْ اللَّيْلَةُ السَّادِسَةُ الَّتِي تَلِيهَا فَلَمْ يَقُمْهَا حَتَّى كَانَتْ الْخَامِسَةُ الَّتِي تَلِيهَا ثُمَّ قَامَ بِنَا حَتَّى مَضَى نَحْوٌ مِنْ شَطْرِ اللَّيْلِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ نَفَّلْتَنَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِنَا هَذِهِ فَقَالَ إِنَّهُ مَنْ قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ فَإِنَّهُ يَعْدِلُ قِيَامَ لَيْلَةٍ ثُمَّ كَانَتْ الرَّابِعَةُ الَّتِي تَلِيهَا فَلَمْ يَقُمْهَا حَتَّى كَانَتْ الثَّالِثَةُ الَّتِي تَلِيهَا قَالَ فَجَمَعَ نِسَاءَهُ وَأَهْلَهُ وَاجْتَمَعَ النَّاسُ قَالَ فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِينَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلَاحُ قِيلَ وَمَا الْفَلَاحُ قَالَ السُّحُورُ قَالَ ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنْ بَقِيَّةِ الشَّهْرِ

ترجمہ Book - حدیث 1327

کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ باب: ماہ رمضان کے قیام یعنی نماز تراویح کا بیان ابو ذر ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: ہم نے رسول اللہ ﷺ کی معیت میں رمضان کے روزے رکھے۔ آپ نے ان ایام میں قیام نہ فرمایا حتی کہ سات راتیں باقی رہ گئیں تو ساتویں رات آپ ﷺ نے ہمیں نماز ( تراویح) پڑھائی حتی کہ تقریباً تہائی رات گزر گئی پھر اس سے متصل چھٹی رات آئی تو آپ ﷺ نے قیام نہ فرمایا، پھر اس سے متصل پانچویں رات آئی تو آپ ﷺ نے ہمیں نماز (تراویح) پڑھائی حتی کہ تقریباً آدھی رات گزر گئی۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کاش آپ ہمیں اس رات کا باقی حصہ بھی عطا فرماتے۔ ( پوری رات قیام فرماتے)آپﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص امام کے ساتھ اس کے فارغ ہونے تک قیام کرتا ہے( اس کا ) وہ ( قیام) پوری رات کے قیام کے) برابر ہوتا ہے۔‘‘ پھر اس سے متصل چوتھی رات آئی تو رسول اللہ ﷺ نے قیام نہ فرمایا۔ پھر اس سے متصل تیسری رات آئی تو آپ ﷺ نے اپنی خواتین کو اور اہل خانہ کو اکٹھا کیا اور ( بہت زیادہ) لوگ بھی جمع ہو گئے۔ نبی ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی حتی کہ ہمیں خطرہ محسوس ہوا کہ ہماری فلاں چھوٹ جائے گی۔( ابو ذر ؓ سے ) پوچھا گیا: فلاح کا کیا مطلب ہے؟ فرمایا: سحری کا کھانا، پھر فرمایا: اس کے بعد مہینے کی باقی راتوں میں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز( تراویح) نہیں پڑھائی۔
تشریح : 1۔رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت کااہتمام معمول سے زیادہ کرنا چاہیے۔2۔نماز تراویح نفل نماز ہے۔اس لئے نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے پورا مہینہ نہیں پڑھائی۔صرف چند راتیں پڑھائی۔3۔نماز تراویح میں قیام رکوع اور سجود وغیرہ طویل ہونے سے زیادہ وقت تک نماز اد کی جاسکتی ہے۔اور کم تلاوت اور مختصر رکوع وسجود کے ساتھ کم وقت میں بھی فراغت حاصل کی جاسکتی ہے۔اس میں عام نمازیوں کے شوق اور ہمت کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔4۔نفل نماز میں تلاوت کی کوی خاص مقد ار مقرر کرنا ضروری نہیں۔کسی دن طویل اور کسی دن مختصر قیام ہوسکتا ہے۔5۔طویل نماز پڑھنے کا ارادہ ہو تو تلاوت زیادہ کرلی جائے۔ یا تلاوت ترتیل کے ساتھ کی جائے رکعتیں زیادہ کرنے کی ضرورت نہیں۔کسی روایت میں یہ صراحت نہیں کہ نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے ان راتوں میں رکعتوں کی تعداد میں اضافہ فرمایا تھا۔بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز رمضان میں بھی اوردوسرے مہینوں میں بھی وتروں سمیت گیارہ رکعت ہی ہوتی تھی۔(صحیح البخاری التھجد باب قیام النبی صلی اللہ علیہ وسلم باللیل فی رمضان وغیرہ حدیث 1147)6۔نماز تراویح میں عورتوں اور بچوں کو بھی شریک ہونا چاہیے۔7۔سحری کا کھانا بھی اہمیت کا حامل ہے۔یہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے روزوں میں امتیاز بھی ہے۔ اور باعث برکت بھی اس لئے صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمعین نے اسے فلاح یعنی کامیابی کا نام دیا ہے۔8۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے پورا رمضان تراویح نہیں پڑھائی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطرہ محسوس ہواکہ اگر فرض ہوگئی۔تو امت کو اس پر عمل کرنا مشکل ہوگا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد چونکہ یہ خطرہ نہیں رہا اس لئے صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمعین نے پورا مہینہ باجماعت تراویح کا اہتمام فرمایا۔ویسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام ر مضان کی ترغٰب دی تھی۔اس لئے اس پر عمل کرنا مسنون ہے۔ اسے بدعت میں شما ر نہیں کیا جاسکتا۔ 1۔رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت کااہتمام معمول سے زیادہ کرنا چاہیے۔2۔نماز تراویح نفل نماز ہے۔اس لئے نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے پورا مہینہ نہیں پڑھائی۔صرف چند راتیں پڑھائی۔3۔نماز تراویح میں قیام رکوع اور سجود وغیرہ طویل ہونے سے زیادہ وقت تک نماز اد کی جاسکتی ہے۔اور کم تلاوت اور مختصر رکوع وسجود کے ساتھ کم وقت میں بھی فراغت حاصل کی جاسکتی ہے۔اس میں عام نمازیوں کے شوق اور ہمت کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔4۔نفل نماز میں تلاوت کی کوی خاص مقد ار مقرر کرنا ضروری نہیں۔کسی دن طویل اور کسی دن مختصر قیام ہوسکتا ہے۔5۔طویل نماز پڑھنے کا ارادہ ہو تو تلاوت زیادہ کرلی جائے۔ یا تلاوت ترتیل کے ساتھ کی جائے رکعتیں زیادہ کرنے کی ضرورت نہیں۔کسی روایت میں یہ صراحت نہیں کہ نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے ان راتوں میں رکعتوں کی تعداد میں اضافہ فرمایا تھا۔بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز رمضان میں بھی اوردوسرے مہینوں میں بھی وتروں سمیت گیارہ رکعت ہی ہوتی تھی۔(صحیح البخاری التھجد باب قیام النبی صلی اللہ علیہ وسلم باللیل فی رمضان وغیرہ حدیث 1147)6۔نماز تراویح میں عورتوں اور بچوں کو بھی شریک ہونا چاہیے۔7۔سحری کا کھانا بھی اہمیت کا حامل ہے۔یہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے روزوں میں امتیاز بھی ہے۔ اور باعث برکت بھی اس لئے صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمعین نے اسے فلاح یعنی کامیابی کا نام دیا ہے۔8۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے پورا رمضان تراویح نہیں پڑھائی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطرہ محسوس ہواکہ اگر فرض ہوگئی۔تو امت کو اس پر عمل کرنا مشکل ہوگا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد چونکہ یہ خطرہ نہیں رہا اس لئے صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمعین نے پورا مہینہ باجماعت تراویح کا اہتمام فرمایا۔ویسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام ر مضان کی ترغٰب دی تھی۔اس لئے اس پر عمل کرنا مسنون ہے۔ اسے بدعت میں شما ر نہیں کیا جاسکتا۔