كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابُ مَا جَاءَ فِي خُرُوجِ النِّسَاءِ فِي الْعِيدَيْنِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ قَالَتْ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُخْرِجَهُنَّ فِي يَوْمِ الْفِطْرِ وَالنَّحْرِ قَالَ قَالَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ فَقُلْنَا أَرَأَيْتَ إِحْدَاهُنَّ لَا يَكُونُ لَهَا جِلْبَابٌ قَالَ فَلْتُلْبِسْهَا أُخْتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا
کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ
باب: عیدین میں عورتوں کا عید گاہ جانا
ام عطیہ ؓا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عید الفطر اور عید الاضحیٰ میں عورتوں کو لے کر جائیں۔ ام عطیہ ؓا نے بیان فرمایا کہ ہم نے عرض کیا: یہ فرمایئے کہ اگر ہم میں سے کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو؟ (تو وہ کیا کرے؟) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے اس کی بہن اپنی چادر اوڑھا دے۔‘‘
تشریح :
1۔ جس طرح فرض نمازوں میں اور جمعے میں عورتوں کامسجد میں آنا جائز ہے۔اسی طرح عیدین میں بھی ان کی حاضری ضروری ہے۔2۔اس میں ایک حکمت تو یہ ہے کہ خطبے میں دین کے مسائل بیان کیے جاتے ہیں۔اوردین سیکھنا عورتوں پر بھی فرض ہے۔دوسرے عید مسلمانوں کی اجتماعی شان وشوکت کے اظہا کا دن ہے۔عورتوں اور بچوں کی شرکت سے یہ مقصد زیادہ بہتر طریقے پر پورا ہوتا ہے۔تیسرے یہ کہ عید اجتماعی خوشی کاموقع ہے۔جس میں مرد اورعورتیں سبھی اہل ایمان شامل ہیں۔لہذا عورتوں کو اس خوشی میں شرکت سے محروم رکھنے کا کوئی جواز نہیں2۔اگر کسی خاتون کو کوئی ایسا عذر لاحق ہو۔ جس کی وجہ سے وہ عید کے اجتماع میں شریک نہ ہوسکتی ہوتو اس کا یہ عذر اگردور ہوسکتا ہوتو ضرور کیاجائے۔اسے نماز عید پڑھنے اور خطبہ سننے سے محروم نہ رکھا جائے۔4۔اگر کسی کے پاس چادر نہ ہوتو دوسری خاتون اسے اپنی چادر میں شریک کرے۔دو عورتوں کا ایک چادر اوڑھ کرچلنا ایک مشکل کام ہے۔لیکن اس کا حکم دیا گیا ہ اس سے عورتوں کے عید میں شریک ہونے کی انتہائی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔5۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دوسری خاتون کے پاس دو چادریں ہوں۔ تو وہ ایک چادر اس عورت کودےدے۔ جس کے پاس چادر نہیں صحیح ابن خزیمہ کی روایت کے الفاظ سے یہ مفہوم ظاہر ہوتا ہے۔(صحیح ابن خزیمہ 2/362۔حدیث 1467)6۔پردہ اس قدر اہم ہے کہ چادر نہ ہونے کو بے پردہ باہر جانے کےلئے عذر تسلیم نہیں کیا گیا۔ حتیٰ کہ اگر دوسری عورتو ں سے عاریتاً بھی چادر نہ ملے تو وہ عورتیں ایک چادر اوڑھ کر چلیں بغیر چادر کے نہ جایئں۔
1۔ جس طرح فرض نمازوں میں اور جمعے میں عورتوں کامسجد میں آنا جائز ہے۔اسی طرح عیدین میں بھی ان کی حاضری ضروری ہے۔2۔اس میں ایک حکمت تو یہ ہے کہ خطبے میں دین کے مسائل بیان کیے جاتے ہیں۔اوردین سیکھنا عورتوں پر بھی فرض ہے۔دوسرے عید مسلمانوں کی اجتماعی شان وشوکت کے اظہا کا دن ہے۔عورتوں اور بچوں کی شرکت سے یہ مقصد زیادہ بہتر طریقے پر پورا ہوتا ہے۔تیسرے یہ کہ عید اجتماعی خوشی کاموقع ہے۔جس میں مرد اورعورتیں سبھی اہل ایمان شامل ہیں۔لہذا عورتوں کو اس خوشی میں شرکت سے محروم رکھنے کا کوئی جواز نہیں2۔اگر کسی خاتون کو کوئی ایسا عذر لاحق ہو۔ جس کی وجہ سے وہ عید کے اجتماع میں شریک نہ ہوسکتی ہوتو اس کا یہ عذر اگردور ہوسکتا ہوتو ضرور کیاجائے۔اسے نماز عید پڑھنے اور خطبہ سننے سے محروم نہ رکھا جائے۔4۔اگر کسی کے پاس چادر نہ ہوتو دوسری خاتون اسے اپنی چادر میں شریک کرے۔دو عورتوں کا ایک چادر اوڑھ کرچلنا ایک مشکل کام ہے۔لیکن اس کا حکم دیا گیا ہ اس سے عورتوں کے عید میں شریک ہونے کی انتہائی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔5۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دوسری خاتون کے پاس دو چادریں ہوں۔ تو وہ ایک چادر اس عورت کودےدے۔ جس کے پاس چادر نہیں صحیح ابن خزیمہ کی روایت کے الفاظ سے یہ مفہوم ظاہر ہوتا ہے۔(صحیح ابن خزیمہ 2/362۔حدیث 1467)6۔پردہ اس قدر اہم ہے کہ چادر نہ ہونے کو بے پردہ باہر جانے کےلئے عذر تسلیم نہیں کیا گیا۔ حتیٰ کہ اگر دوسری عورتو ں سے عاریتاً بھی چادر نہ ملے تو وہ عورتیں ایک چادر اوڑھ کر چلیں بغیر چادر کے نہ جایئں۔