Book - حدیث 1302

كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابُ مَا جَاءَ فِي التَّقْلِيسِ يَوْمَ الْعِيدِ ضعیف حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ مُغِيرَةَ عَنْ عَامِرٍ قَالَ شَهِدَ عِيَاضٌ الْأَشْعَرِيُّ عِيدًا بِالْأَنْبَارِ فَقَالَ مَا لِي لَا أَرَاكُمْ تُقَلِّسُونَ كَمَا كَانَ يُقَلَّسُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ Book - حدیث 1302

کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ باب: عید کے دن دف بجانا سیدنا عامر ؓ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: سیدنا عیاش اشعری ؓ نے ایک عید انبار میں منائی تو فرمایا: کیا بات ہے میں تمہیں گاتے بجاتے نہیں دیکھ رہا جس طرح رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں گانا بجانا ہوتا تھا؟
تشریح : 1۔انبار ایک شہر کانام ہے۔2۔تقلیس کے معنی ہیں۔ خوشی کے موقع پر اظہار مسرت کےلئے قوی کھیل کود بچیوں کا قومی گیت گانا یادف وغیرہ بجالینا۔مذکورہ روایت سنداضعیف ہے۔تاہم دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خوشی کے موقعوں پر ان چیزوں کا جواز نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے باقی رکھا ہے۔لیکن ایک چیز ہے گھریلو سطح پرگھریلو بچیوں کا محدود دائرے میں دف بجاکریا آبائواجداد کے مفاخر وما ثر کے تذکروں پر مبنی قومی گیت گا کر خوشی کااظہار کرنا اور ایک ہے ماہرفن مغنیات کا عشقیہ مخرب اخلاق رہزن تمکین وہوش اور غارت گر ایمان قسم کے گانے سازوآواز کے جادو کے ساتھ گانا یا پیشہ ور فاحشہ عورتوں کاعریاں یا نیم عریاںرقص وسرور کا مظاہرہ کرناان دونوں میں زمین آسمان کافرق ہے۔اول الزکر کے جواز کا مطلب ثانی الزکر کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتا۔بڑا ظالم ہے وہ شخص جو احادیث میں بیان کردہ اول الزکر قسم کے واقعات سے دوسری قسم کے فواحش ومنکرات کو مٹانے کےلئے آئے تھے نہ کہ ان کو برقرار رکھنے یا ان کی حوصلہ افزائی کرنے کےلئےھداھم اللہ تعالیٰ علاوہ ازیں اول الزکر چیزیں بھی صرف مباح (جائز) ہی ہیں نہ کہ فرض وواجب یاسنت ومستحب اور یہ مسلمہ اصول ہے کہ کوئی مباح کام حرام کا زریعہ بن رہا ہو تو وہ مباح کام بھی ناجائز قرار پاتا ہے۔اور حرام سے بچنے بچانے کے لئے مباح کام سے بھی لوگوں کوروک دیا جاتا ہے۔ اس لئے جو علماء شامی وغیرہ کے موقع پر ان جائز چیزوں سے بھی روکتے ہیں۔حکمت عملی کے اعتبار سے ان کا موقف اسلام کے زیادہ قریب ہے۔ کیونکہ بات صرف دف تک ہی نہیں رہتی۔ڈھول ڈھمکوں سازوموسیقی اور بینڈ باجوں تک بلکہ مجروں اور کھلم کھلا فواحش و منکرات کے ارتکاب تک پہنچ جاتی ہے۔اعاذنا اللہ منہ 1۔انبار ایک شہر کانام ہے۔2۔تقلیس کے معنی ہیں۔ خوشی کے موقع پر اظہار مسرت کےلئے قوی کھیل کود بچیوں کا قومی گیت گانا یادف وغیرہ بجالینا۔مذکورہ روایت سنداضعیف ہے۔تاہم دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خوشی کے موقعوں پر ان چیزوں کا جواز نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے باقی رکھا ہے۔لیکن ایک چیز ہے گھریلو سطح پرگھریلو بچیوں کا محدود دائرے میں دف بجاکریا آبائواجداد کے مفاخر وما ثر کے تذکروں پر مبنی قومی گیت گا کر خوشی کااظہار کرنا اور ایک ہے ماہرفن مغنیات کا عشقیہ مخرب اخلاق رہزن تمکین وہوش اور غارت گر ایمان قسم کے گانے سازوآواز کے جادو کے ساتھ گانا یا پیشہ ور فاحشہ عورتوں کاعریاں یا نیم عریاںرقص وسرور کا مظاہرہ کرناان دونوں میں زمین آسمان کافرق ہے۔اول الزکر کے جواز کا مطلب ثانی الزکر کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتا۔بڑا ظالم ہے وہ شخص جو احادیث میں بیان کردہ اول الزکر قسم کے واقعات سے دوسری قسم کے فواحش ومنکرات کو مٹانے کےلئے آئے تھے نہ کہ ان کو برقرار رکھنے یا ان کی حوصلہ افزائی کرنے کےلئےھداھم اللہ تعالیٰ علاوہ ازیں اول الزکر چیزیں بھی صرف مباح (جائز) ہی ہیں نہ کہ فرض وواجب یاسنت ومستحب اور یہ مسلمہ اصول ہے کہ کوئی مباح کام حرام کا زریعہ بن رہا ہو تو وہ مباح کام بھی ناجائز قرار پاتا ہے۔اور حرام سے بچنے بچانے کے لئے مباح کام سے بھی لوگوں کوروک دیا جاتا ہے۔ اس لئے جو علماء شامی وغیرہ کے موقع پر ان جائز چیزوں سے بھی روکتے ہیں۔حکمت عملی کے اعتبار سے ان کا موقف اسلام کے زیادہ قریب ہے۔ کیونکہ بات صرف دف تک ہی نہیں رہتی۔ڈھول ڈھمکوں سازوموسیقی اور بینڈ باجوں تک بلکہ مجروں اور کھلم کھلا فواحش و منکرات کے ارتکاب تک پہنچ جاتی ہے۔اعاذنا اللہ منہ