كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ تَعْظِيمِ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِﷺ وَالتَّغْلِيظِ عَلَى مَنْ عَارَضَهُ صحیح حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ فِي بَيْتِهِ أَنَا سَأَلْتُهُ عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ ثُمَّ مَرَّ فِي الْحَدِيثِ قَالَ أَوْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَأْتِيهِ الْأَمْرُ مِمَّا أَمَرْتُ بِهِ أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي مَا وَجَدْنَا فِي كِتَابِ اللَّهِ اتَّبَعْنَاهُ
کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت
باب: حدیث رسول ﷺ کی تعظیم اور اس کی مخالفت کرنے والے پر سختی کرنے کا بیان
حضرت ابو رافع ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:‘‘میں تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ پلنگ پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو، اسے میرے احکام میں سے کوئی حکم یا ممانعت پہنچے اور وہ کہہ دے: میں نہیں جانتا، ہم جو کچھ اللہ کی کتاب میں پائیں گے ،اس کی پیروی کریں گے۔’’
تشریح :
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی تعمیل جس طرح ان حضرات پر فرض تھی جو براہ راست نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتے تھے، اسی طرح ان لوگوں پر بھی فرض ہے جن تک یہ حکم دوسروں کے واسطے سے پہنچتے ہیں۔ البتہ اس کے لیے ضروری ہے کہ واسطہ قابل اعتماد ہو۔ چنانچہ محدثین کے اصولون کی روشنی میں جو حدیث صحیح یا حسن ثابت ہو جائے اس کی تعمیل ہر مسلمان پر فرض ہے۔ (2) حدیث کو سن کر یہ کہنا کہ میں نہیں جانتا انکار اور تکبر کا اظہار ہے۔ گویا اس شخص کے نزدیک ارشاد نبوی کی کوئی اہمیت نہیں اور یہ بہت بڑا جرم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: () (النور:63) جو لوگ نبی کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں، انہیں ڈرنا چاہیے کہیں وہ کسی آزمائش میں مبتلا نہ ہو جائیں، یا ان پر دردناک عذاب نہ آجائے۔ (3) حدیث کا انکار درحقیقت قرآن کا انکار ہے کیونکہ قرآن میں واضح طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع کا حکم دیا گیا ہے اور قرآن مجید کی قولی اور عملی تشریح کو نبی علیہ السلام کا مقصد بعثت قرار دیا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں حدیث کا انکار سب سے پہلے خوارج نے کیا، جن کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر نشانہ بننے والے جانور سے آر پار ہو جاتا ہے۔ (صحيح مسلم‘الزكاة‘ باب ذكر الخوارج وصفاتهم‘ حديث :1063)
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی تعمیل جس طرح ان حضرات پر فرض تھی جو براہ راست نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتے تھے، اسی طرح ان لوگوں پر بھی فرض ہے جن تک یہ حکم دوسروں کے واسطے سے پہنچتے ہیں۔ البتہ اس کے لیے ضروری ہے کہ واسطہ قابل اعتماد ہو۔ چنانچہ محدثین کے اصولون کی روشنی میں جو حدیث صحیح یا حسن ثابت ہو جائے اس کی تعمیل ہر مسلمان پر فرض ہے۔ (2) حدیث کو سن کر یہ کہنا کہ میں نہیں جانتا انکار اور تکبر کا اظہار ہے۔ گویا اس شخص کے نزدیک ارشاد نبوی کی کوئی اہمیت نہیں اور یہ بہت بڑا جرم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: () (النور:63) جو لوگ نبی کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں، انہیں ڈرنا چاہیے کہیں وہ کسی آزمائش میں مبتلا نہ ہو جائیں، یا ان پر دردناک عذاب نہ آجائے۔ (3) حدیث کا انکار درحقیقت قرآن کا انکار ہے کیونکہ قرآن میں واضح طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع کا حکم دیا گیا ہے اور قرآن مجید کی قولی اور عملی تشریح کو نبی علیہ السلام کا مقصد بعثت قرار دیا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں حدیث کا انکار سب سے پہلے خوارج نے کیا، جن کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر نشانہ بننے والے جانور سے آر پار ہو جاتا ہے۔ (صحيح مسلم‘الزكاة‘ باب ذكر الخوارج وصفاتهم‘ حديث :1063)