كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابُ مَا جَاءَ فِي صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ رَجَاءٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ و عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَخْرَجَ مَرْوَانُ الْمِنْبَرَ يَوْمَ الْعِيدِ فَبَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا مَرْوَانُ خَالَفْتَ السُّنَّةَ أَخْرَجْتَ الْمِنْبَرَ يَوْمَ عِيدٍ وَلَمْ يَكُنْ يُخْرَجُ بِهِ وَبَدَأْتَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَلَمْ يَكُنْ يُبْدَأُ بِهَا فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ أَمَّا هَذَا فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ رَأَى مُنْكَرًا فَاسْتَطَاعَ أَنْ يُغَيِّرَهُ بِيَدِهِ فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ بِلِسَانِهِ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ
کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ
باب: نماز عیدین کے احکام و مسائل
سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: مروان نے عید کے دن منبر نکلوایا، ( اور عید گاہ میں منبر پر خطبہ دیا) اور نماز سے پہلے خبہ دیا ، ایک آدمی نے اٹھ کر کہا: اے مروان! آپ نے خلاف سنت کام کیا ہے۔ آپ نے عید کے دن منبر نکالا ہے۔ ( مسجد سے اٹھا کر عید گاہ میں لائے ہیں) حالانکہ( نبی ﷺ کے زمانے میں) وہ نکالا نہیں جاتا تھا، اور آپ نے نماز سے پہلے خطبہ شروع کر دیا، حالانکہ ابتدا خطبے سے نہیں ہوا کرتی تھی( بلکہ پہلے نماز ہوتی تھی۔) ابو سعید خدری ؓ نے فرمایا: اس شخص نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے : ’’جو شخص کوئی برائی دیکھے اور اسے اپنے ہاتھ سے تبدیل کرنے کی طاقت ہو تو اسے چاہیے کہ اپنے ہاتھ سے تبدیل کر دے۔ اگر طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے ( منع کردے) اگر زبان سے( منع کرنے کی) طاقت نہ ہو تو دل سے( نفرت کرے) اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔‘‘
تشریح :
1۔عید گاہ میں منبر لے جانا یا منبر بنا لینادرست نہیں۔2۔عید کی نماز خطبے سے پہلے ہوتی تھی۔2۔لوگوں کی کوتاہی کی وجہ سے اگر ایک غلطی رواج پا جائے۔تو اس کو ختم کرنے کےلئے خلاف سنت طریقہ اختیار کرنا درست نہیں۔کیونکہ وہ ایک اور غلطی ہوگی۔عوام کا عید کی نماز پڑھ کر خطبہ سنے بغیر چلے جانا غلطی ہے۔اس پر توجہ دلانا اور اس سے روکناضروری ہے۔تاہم اس کا علاج یہ نہیں کہ خطبہ عید کی نماز سے پہلے دے دیا جائے۔4۔حاکم کی غلطی پر عوام کو تنبیہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ بشرط یہ کہ کوئی بڑی خرابی پیدا ہونے کااندیشہ نہ ہو تاہم علماء کو چاہیے کہ صحیح بات کا پرچار کریں۔ تاکہ اس پر عمل کرنے کےلئے مناسب حالات پیدا ہوسکیں۔اورغلط کام چھوڑنے کے لئے عوام کی حوصلہ افزائی ہو۔5۔اچھے کام پر سب کے سامنے تعریف کرنا درست ہے۔جب کہ مقصد اچھا کام کرنے والے کی تایئد اور نیکی پر اسکی حوصلہ افزائی ہو۔6۔حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اس شخص نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ اس سے اس کی تایئد اور حوصلہ افزائی مقصود ہے۔سامعین میں سے بعض لوگوں نے اس شخص کی بات کونا مناسب تصور کیا ہوگا یا یہ سمجھا ہوگا کہ یہ بات تو صحیح ہے۔لیکن اس موقع پر نہیں کہنی چاہیے تھی۔حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس غلط فہمی کاازالہ کردیا۔7۔غلطی کی اصلاح اور قوت سے برائی کوختم کردینا حکام کافرض ہے۔یا جس شخص پر اختیار حاصل ہو اسے بزور قوت روکا جاسکتا ہے۔مثلا ۔غلام ماتحت اولاد اور شاگرد وغیرہ ورنہ زبان سے روکنا کافی ہے۔8۔زبان سے منع کرنا علماء کافریضہ ہے۔اورعوام کو بھی اپنے دائرہ اختیار میں اس طریقے پر عمل کرنا چاہیے۔9۔اگر کوئی شخص ایمان کی کمزوری یا جراءت وہمت نہ ہونے کی وجہ سے زبان سے بھی بُرائی کی شناعت واضح نہ کرسکے تو بھی دل میں گناہ سے نفرت بہرحال ضروری ہے۔گناہ کو اچھا سمجھنا پسند کرنا یا منع کرنے والوں کو اچھا نہ سمجھنا ایک لہاظ سے گناہ میں شرکت ہے جو ایک مومن کے شایان شان نہیں۔
1۔عید گاہ میں منبر لے جانا یا منبر بنا لینادرست نہیں۔2۔عید کی نماز خطبے سے پہلے ہوتی تھی۔2۔لوگوں کی کوتاہی کی وجہ سے اگر ایک غلطی رواج پا جائے۔تو اس کو ختم کرنے کےلئے خلاف سنت طریقہ اختیار کرنا درست نہیں۔کیونکہ وہ ایک اور غلطی ہوگی۔عوام کا عید کی نماز پڑھ کر خطبہ سنے بغیر چلے جانا غلطی ہے۔اس پر توجہ دلانا اور اس سے روکناضروری ہے۔تاہم اس کا علاج یہ نہیں کہ خطبہ عید کی نماز سے پہلے دے دیا جائے۔4۔حاکم کی غلطی پر عوام کو تنبیہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ بشرط یہ کہ کوئی بڑی خرابی پیدا ہونے کااندیشہ نہ ہو تاہم علماء کو چاہیے کہ صحیح بات کا پرچار کریں۔ تاکہ اس پر عمل کرنے کےلئے مناسب حالات پیدا ہوسکیں۔اورغلط کام چھوڑنے کے لئے عوام کی حوصلہ افزائی ہو۔5۔اچھے کام پر سب کے سامنے تعریف کرنا درست ہے۔جب کہ مقصد اچھا کام کرنے والے کی تایئد اور نیکی پر اسکی حوصلہ افزائی ہو۔6۔حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اس شخص نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ اس سے اس کی تایئد اور حوصلہ افزائی مقصود ہے۔سامعین میں سے بعض لوگوں نے اس شخص کی بات کونا مناسب تصور کیا ہوگا یا یہ سمجھا ہوگا کہ یہ بات تو صحیح ہے۔لیکن اس موقع پر نہیں کہنی چاہیے تھی۔حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس غلط فہمی کاازالہ کردیا۔7۔غلطی کی اصلاح اور قوت سے برائی کوختم کردینا حکام کافرض ہے۔یا جس شخص پر اختیار حاصل ہو اسے بزور قوت روکا جاسکتا ہے۔مثلا ۔غلام ماتحت اولاد اور شاگرد وغیرہ ورنہ زبان سے روکنا کافی ہے۔8۔زبان سے منع کرنا علماء کافریضہ ہے۔اورعوام کو بھی اپنے دائرہ اختیار میں اس طریقے پر عمل کرنا چاہیے۔9۔اگر کوئی شخص ایمان کی کمزوری یا جراءت وہمت نہ ہونے کی وجہ سے زبان سے بھی بُرائی کی شناعت واضح نہ کرسکے تو بھی دل میں گناہ سے نفرت بہرحال ضروری ہے۔گناہ کو اچھا سمجھنا پسند کرنا یا منع کرنے والوں کو اچھا نہ سمجھنا ایک لہاظ سے گناہ میں شرکت ہے جو ایک مومن کے شایان شان نہیں۔