Book - حدیث 1273

كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابُ مَا جَاءَ فِي صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عَطَاءٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ صَلَّى قَبْلَ الْخُطْبَةِ ثُمَّ خَطَبَ فَرَأَى أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعْ النِّسَاءَ فَأَتَاهُنَّ فَذَكَّرَهُنَّ وَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ وَبِلَالٌ قَائِلٌ بِيَدَيْهِ هَكَذَا فَجَعَلَتْ الْمَرْأَةُ تُلْقِي الْخُرْصَ وَالْخَاتَمَ وَالشَّيْءَ

ترجمہ Book - حدیث 1273

کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ باب: نماز عیدین کے احکام و مسائل سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے خطبے سے پہلے ( عید کی) نماز پڑھی، پھر خطبہ دیا، آپ نے محسوس کیا کہ میں عورتوں کو( اپنی بات) نہیں سنا سکا( کیوں کہ وہ دور تھیں) چنانچہ آپ خواتین کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں وعظ و نصیحت کی اور انہیں صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ بلال ؓ نے اپنے اس طرح کیے ہوئے تھے، چنانچہ ( ہر) عورت نے بالی ، انگوٹھی اور( ایسی ہی) چیز( جو کسی کے پاس تھی کپڑے میں) ڈالنا شروع کردی۔
تشریح : 1۔گواہی کامطلب یہ ہے کہ انھیں یہ سب کچھ اچھی طرح یاد ہے اور وہ پورے وثوق سے بیان کر رہے ہیں۔ جس طرح گواہ وہی بات کہتا ہے۔ جو اسے خوب اچھی طرح یاد ہو۔اور اس میں اسے کوئی شک نہ ہو۔2۔عید الفطر اورعید الاضحیٰ میں پہلے نماز پھر خطبہ ہوتا ہے۔جب کہ جمعے میں اس کے برعکس ہے۔3۔اگ کسی مقام پر لائوڈ سپیکر کابندوبست نہ ہوسکے۔اور امام ضرورت محسوس کرے تو عورتوں کو الگ سے وعظ ونصیحت کی جاسکتی ہے۔5۔عورتیں اپنے ذاتی مال میں سے خاوند کی اجازت کے بغیر بھی صدقہ کرسکتی ہیں۔اور خاوند کے مال میں سے اس کی اجازت سے صدقہ کرسکتی ہیں۔خواہ اس نے صراسحت سے اجازت دے رکھی ہو یا زیادہ گمان یہ ہو کہ خاوند اس صدقے سے ناراض نہیں ہوگا۔یہ بھی اجازت ہی کے حکم میں ہے۔6۔ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ہاتھ اس طرح کیے ہوئے تھے۔ راوی نے اشارہ کرکے بتایا اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں کپڑا تھا۔جوانہوں نے پھیلا رکھا تھا۔تاکہ اس میں نقدی یادوسری چیزیں ڈالی جاسکیں۔7۔مرد کسی ضرورت کے تحت عورتوں کے اجتماع میں جاسکتا ہے۔بشرط یہ کہ کوئی غلط فہمی پید ا ہونے کا یا نامناسب نتائج نکلنے کا خدشہ نہ ہو۔8۔عورتیں عید کے موقع پر زیور پہن سکتی ہیںَ9۔عورتوں کا انگوٹھیاں ار بالیاں پہننا جائز ہے۔ 1۔گواہی کامطلب یہ ہے کہ انھیں یہ سب کچھ اچھی طرح یاد ہے اور وہ پورے وثوق سے بیان کر رہے ہیں۔ جس طرح گواہ وہی بات کہتا ہے۔ جو اسے خوب اچھی طرح یاد ہو۔اور اس میں اسے کوئی شک نہ ہو۔2۔عید الفطر اورعید الاضحیٰ میں پہلے نماز پھر خطبہ ہوتا ہے۔جب کہ جمعے میں اس کے برعکس ہے۔3۔اگ کسی مقام پر لائوڈ سپیکر کابندوبست نہ ہوسکے۔اور امام ضرورت محسوس کرے تو عورتوں کو الگ سے وعظ ونصیحت کی جاسکتی ہے۔5۔عورتیں اپنے ذاتی مال میں سے خاوند کی اجازت کے بغیر بھی صدقہ کرسکتی ہیں۔اور خاوند کے مال میں سے اس کی اجازت سے صدقہ کرسکتی ہیں۔خواہ اس نے صراسحت سے اجازت دے رکھی ہو یا زیادہ گمان یہ ہو کہ خاوند اس صدقے سے ناراض نہیں ہوگا۔یہ بھی اجازت ہی کے حکم میں ہے۔6۔ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ہاتھ اس طرح کیے ہوئے تھے۔ راوی نے اشارہ کرکے بتایا اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں کپڑا تھا۔جوانہوں نے پھیلا رکھا تھا۔تاکہ اس میں نقدی یادوسری چیزیں ڈالی جاسکیں۔7۔مرد کسی ضرورت کے تحت عورتوں کے اجتماع میں جاسکتا ہے۔بشرط یہ کہ کوئی غلط فہمی پید ا ہونے کا یا نامناسب نتائج نکلنے کا خدشہ نہ ہو۔8۔عورتیں عید کے موقع پر زیور پہن سکتی ہیںَ9۔عورتوں کا انگوٹھیاں ار بالیاں پہننا جائز ہے۔