كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابُ مَا جَاءَ فِي الدُّعَاءِ فِي الِاسْتِسْقَاءِ حسن حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ حَمْزَةَ حَدَّثَنَا سَالِمٌ عَنْ أَبِيهِ قَالَ رُبَّمَا ذَكَرْتُ قَوْلَ الشَّاعِرِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَى وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَمَا نَزَلَ حَتَّى جَيَّشَ كُلُّ مِيزَابٍ بِالْمَدِينَةِ فَأَذْكُرُ قَوْلَ الشَّاعِرِ وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَى الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ ثِمَالُ الْيَتَامَى عِصْمَةٌ لِلْأَرَامِلِ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي طَالِبٍ
کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ
باب: نماز استسقا ء میں دعا مانگنا
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہےانہوں نے فرمایا: میں بعض اوقات رسول اللہ ﷺ کے چہرہٴ اقدس کو دیکھتا جب کہ آپ منبر پر ( بارش کی دعا کے لیے) تشریف فر ہوتے اور آپ کے منبر پر اترنے سے پہلے مدینے کا ہر پرنالہ پورے زور سے بہنے لگتا تو مجھے شاعر کا یہ شعر یا آجاتا ۔ وہ سفید فام شخصیت( رسول اکرم ﷺ ) جس کے چہرے کے وسیلے سے بادل سے بارش مانگی جاتی ہے یتیموں کا نگہبان، بیواؤں کا محافظ۔ یہ ابو طالب کا کلام ہے۔
تشریح :
1۔میدان میں نکلے بغیر صرف منبر پر دعا کرنا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامتعدد مرتبہ کا عمل ہے۔2۔ہربار نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہوکر بارش کانازل ہوجانا ایک معجزاتی شان کا حامل وصف ہے۔خصوصا دعا کے فورا ً بعد بارش کا پورے زور سے آجانا مقام نبوت کی برکت ہے۔3۔نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم باطنی خوبیوں اور کمالات کے ساتھ ساتھ ظاہری حسن وجمال سے بھی بدرجہ اکمل متصف تھے۔4۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے وسیلے سے دعا مانگنا ابو طالب کا عمل ہے۔جو مرتے دم تک ایمان کی دولت سے محروم رہا تھا۔صحابہ کرام جو رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کوخوب سمجھتے تھے اور توحید کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تقاضوں سے بھی کما حقہ واقف تھے۔وہ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کرتے تھے۔نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو وسیلہ بنانے کی بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا وسیلہ پکڑتے تھے۔نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کےی بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دعا کرائی اور فرمایا۔اے اللہ ۔ہم تجھ سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلمکے وسیلہ سے دعا کرتے تھے۔تو ہمیں بارش دے دیتا تھا۔اب ہم تجھ سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں۔اس لئے ہمیں پانی عطا فرما۔(صحیح البخاری الاستسقاء باب سوال الناس الامام الاستسقاء اذا فحطوا حدیث 1010۔)اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعا کو وسیلہ بنایا ہے۔ان کی ذات کو نہیں ورنہ اگر ذات کو وسیلہ بنانا ہوتا تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکو وسیلہ بناتے جن سے افضل کوئی ذات نہیں۔5۔یہ شعر ابو طالب کے قصیدے کا ہے۔جو اس نے نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں کہا تھا۔حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری کتاب الاستسقاء باب 3 میں اس قصیدے کے کچھ حصے نقل کیے ہیں۔اور سیرت ابن ہشام میں یہ پورا طویل قصیدہ موجود ہے۔(السیرۃ النبویۃ لا بن ہشام 1/309/318 مطبوعہ داراحیاءالتراث الربی)
1۔میدان میں نکلے بغیر صرف منبر پر دعا کرنا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامتعدد مرتبہ کا عمل ہے۔2۔ہربار نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہوکر بارش کانازل ہوجانا ایک معجزاتی شان کا حامل وصف ہے۔خصوصا دعا کے فورا ً بعد بارش کا پورے زور سے آجانا مقام نبوت کی برکت ہے۔3۔نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم باطنی خوبیوں اور کمالات کے ساتھ ساتھ ظاہری حسن وجمال سے بھی بدرجہ اکمل متصف تھے۔4۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے وسیلے سے دعا مانگنا ابو طالب کا عمل ہے۔جو مرتے دم تک ایمان کی دولت سے محروم رہا تھا۔صحابہ کرام جو رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کوخوب سمجھتے تھے اور توحید کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تقاضوں سے بھی کما حقہ واقف تھے۔وہ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کرتے تھے۔نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو وسیلہ بنانے کی بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا وسیلہ پکڑتے تھے۔نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کےی بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دعا کرائی اور فرمایا۔اے اللہ ۔ہم تجھ سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلمکے وسیلہ سے دعا کرتے تھے۔تو ہمیں بارش دے دیتا تھا۔اب ہم تجھ سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں۔اس لئے ہمیں پانی عطا فرما۔(صحیح البخاری الاستسقاء باب سوال الناس الامام الاستسقاء اذا فحطوا حدیث 1010۔)اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعا کو وسیلہ بنایا ہے۔ان کی ذات کو نہیں ورنہ اگر ذات کو وسیلہ بنانا ہوتا تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکو وسیلہ بناتے جن سے افضل کوئی ذات نہیں۔5۔یہ شعر ابو طالب کے قصیدے کا ہے۔جو اس نے نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں کہا تھا۔حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری کتاب الاستسقاء باب 3 میں اس قصیدے کے کچھ حصے نقل کیے ہیں۔اور سیرت ابن ہشام میں یہ پورا طویل قصیدہ موجود ہے۔(السیرۃ النبویۃ لا بن ہشام 1/309/318 مطبوعہ داراحیاءالتراث الربی)