Book - حدیث 1253

كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابُ مَا جَاءَ فِي السَّاعَاتِ الَّتِي تُكْرَهُ فِيهَا الصَّلَاةُ ضعیف حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الصُّنَابِحِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الشَّمْسَ تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ الشَّيْطَانِ أَوْ قَالَ يَطْلُعُ مَعَهَا قَرْنَا الشَّيْطَانِ فَإِذَا ارْتَفَعَتْ فَارَقَهَا فَإِذَا كَانَتْ فِي وَسَطِ السَّمَاءِ قَارَنَهَا فَإِذَا دَلَكَتْ أَوْ قَالَ زَالَتْ فَارَقَهَا فَإِذَا دَنَتْ لِلْغُرُوبِ قَارَنَهَا فَإِذَا غَرَبَتْ فَارَقَهَا فَلَا تُصَلُّوا هَذِهِ السَّاعَاتِ الثَّلَاثَ

ترجمہ Book - حدیث 1253

کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ باب: نماز کے مکروہ اوقات کا بیان ابو عبداللہ ( عبدالرحمن بن عسیلہ) صنابحی ؓ سے روایت ہے ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتاہے۔‘‘ یا فرمایا: ’’ اس کے ساتھ شیطان کے سینگ طلوع ہوتے ہیں، جب سورج بلند ہو جاتا ہے تو شیطان اس سے الگ ہو جاتا ہے جب وہ آسمان کے درمیان میں پہنچتا ہے تو شیطان اس سے مل جاتا ہے جب ڈھل جاتا ہے تو وہ الگ و جاتا ہے، پھر جب سورج غروب ہونے کے قریب ہوتا ہے تو شیطان اس سے مل جاتا ہے جب غروب ہو جائے تو الگ ہوجاتا ہے۔ اس لیے ان تین اوقات میں نماز نہ پڑھا کرو۔‘‘
تشریح : مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے صحیح الموسوعۃ الحدیثیہ کے محققین نے اسے سندا مرسل او دیگر شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے۔جبکہ شیخ البانیرحمۃ اللہ علیہ مذکورہ روایت کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ روایت _فاذا كانت في وسط السماء قارنها فاذا دلكت فارقها)جب سورج آسمان کے درمیان میں پہنچتا ہے۔ تو شیطان اس سے مل جاتا ہے۔جب ڈھل جاتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوجاتا ہے۔ اس جملے کے علاو ہ صحیح ہے۔تاہم انہی کی رائے اقرب الی الصوب معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ مذکورہ روایت کوصحیح کہنے والوں نے اس روایت کے جو شواہدزکر کیے ہیں۔ان میں اس جملے کازکر نہیں ہے۔ بلکہ ان میں مطلق طور پر تین اوقات میں نماز پڑھنا مکروہ قرار دیا گیا ہے۔ تاہم بعض روایات جو کہ مذکورہ روایت سے زیادہ صحیح ہیں۔ان میں ممانعت کی وجہ بیان کی گئی ہے۔کہ دوپہر کے وقت جہنم دکھایا جاتا ہے۔لہذا مذکورہ روایت میں مذکور نماز کی ممانعت کی وجہ درست نہیں بلکہ صحیح اور درست یہی ہے۔کہ دوپہر کے وقت جہنم دہکایا جاتا ہے۔وللہ اعلم تفصیل کےلئے دیکھئے۔(ضعیف سنن ابن ماجہ للبانی۔رقم 2588 وسنن ابن ماجہ للدکتور بشار عواد حدیث 1253۔والموسوعہ حدیثہ مسجد الامام احمد 212/31) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے صحیح الموسوعۃ الحدیثیہ کے محققین نے اسے سندا مرسل او دیگر شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے۔جبکہ شیخ البانیرحمۃ اللہ علیہ مذکورہ روایت کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ روایت _فاذا كانت في وسط السماء قارنها فاذا دلكت فارقها)جب سورج آسمان کے درمیان میں پہنچتا ہے۔ تو شیطان اس سے مل جاتا ہے۔جب ڈھل جاتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوجاتا ہے۔ اس جملے کے علاو ہ صحیح ہے۔تاہم انہی کی رائے اقرب الی الصوب معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ مذکورہ روایت کوصحیح کہنے والوں نے اس روایت کے جو شواہدزکر کیے ہیں۔ان میں اس جملے کازکر نہیں ہے۔ بلکہ ان میں مطلق طور پر تین اوقات میں نماز پڑھنا مکروہ قرار دیا گیا ہے۔ تاہم بعض روایات جو کہ مذکورہ روایت سے زیادہ صحیح ہیں۔ان میں ممانعت کی وجہ بیان کی گئی ہے۔کہ دوپہر کے وقت جہنم دکھایا جاتا ہے۔لہذا مذکورہ روایت میں مذکور نماز کی ممانعت کی وجہ درست نہیں بلکہ صحیح اور درست یہی ہے۔کہ دوپہر کے وقت جہنم دہکایا جاتا ہے۔وللہ اعلم تفصیل کےلئے دیکھئے۔(ضعیف سنن ابن ماجہ للبانی۔رقم 2588 وسنن ابن ماجہ للدکتور بشار عواد حدیث 1253۔والموسوعہ حدیثہ مسجد الامام احمد 212/31)