كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابُ النَّهْيِ عَنْ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَجْرِ وَبَعْدَ الْعَصْرِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ ح و حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ شَهِدَ عِنْدِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَأَرْضَاهُمْ عِنْدِي عُمَرُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا صَلَاةَ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ
کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ
باب: فجر اور عصر کے بعد نماز کی ممانعت کا بیان
سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا: میرے پاس قابل اعتماد حضرات نے گواہی دی ان میں عمر ؓ بھی تھے اور میرے نزدیک ان میں سب سے زیادہ قابل اعتماد عمر ؓ تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’فجر کے بعد کوئی نماز نہیں حتی کہ سورج طلوع ہو جائے اور عصر کے بعد کوئی نماز نہیں حتی کہ سورج غروب ہو جائے۔‘‘
تشریح :
1۔گواہی دینے کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے حدیث بیان کرتے وقت یہ الفاظ کہے۔میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے یہ بات ارشاد فرمائی۔اور اس سے مقصود محض تاکید ہے۔جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ انھیں یہ حدیث پوری طرح یادہے۔اور وہ اسے پورے اعتماد سے بیان کررہے ہیں۔جس طرح گواہی پورے یقین اور اعتماد کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔2۔حدیث قابل اعتماد اور ثقہ افراد کی روایت کی ہوئی قبول ہوتی ہے۔ناقابل اعتماد افراد کی روایت کردہ حدیث قبول کرنا درست نہیں۔3۔صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نے جوحدیث نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست نہیں سنی ہوتی تھی وہ دوسرے صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمعین سے سن کر روایت کرتے اور اس پر عمل کرتے تھے۔یعنی قابل اعتماد افراد کی روایت کردہ صحیح سند والی حدیث پر عمل کرنا صحابہ رضوان للہ عنہم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے ہاں بھی واجب تھا۔
1۔گواہی دینے کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے حدیث بیان کرتے وقت یہ الفاظ کہے۔میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے یہ بات ارشاد فرمائی۔اور اس سے مقصود محض تاکید ہے۔جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ انھیں یہ حدیث پوری طرح یادہے۔اور وہ اسے پورے اعتماد سے بیان کررہے ہیں۔جس طرح گواہی پورے یقین اور اعتماد کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔2۔حدیث قابل اعتماد اور ثقہ افراد کی روایت کی ہوئی قبول ہوتی ہے۔ناقابل اعتماد افراد کی روایت کردہ حدیث قبول کرنا درست نہیں۔3۔صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نے جوحدیث نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست نہیں سنی ہوتی تھی وہ دوسرے صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمعین سے سن کر روایت کرتے اور اس پر عمل کرتے تھے۔یعنی قابل اعتماد افراد کی روایت کردہ صحیح سند والی حدیث پر عمل کرنا صحابہ رضوان للہ عنہم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے ہاں بھی واجب تھا۔