كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ فَضْلِ الزُّبَيْرِؓ صحیح حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَهَدِيَّةُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَتْ لِي عَائِشُةُ، يَا عُرْوَةُ كَانَ أَبَوَاكَ مِنَ الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ: أَبُو بَكْرٍ، وَالزُّبَيْرُ
کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت
باب: حضرت زبیر کے فضائل و مناقب
حضرت عروہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ ؓا نے مجھ سے فرمایا: عروہ! تمہارے والد اور نانا ان لوگوں میں شامل ہیں، جنہوں نے زخمی ہونے کے بعد بھی اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی تعمیل کی، یعنی ابو بکر اور زبیر ؓ۔
تشریح :
(1) اس حدیث سے قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ کی طرف اشارہ ہے: (الَّذينَ استَجابوا لِلَّهِ وَالرَّسولِ مِن بَعدِ ما أَصابَهُمُ القَرحُ لِلَّذينَ أَحسَنوا مِنهُم وَاتَّقَوا أَجرٌ عَظيمٌ) (آل عمران: 172) جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو قبول کیا، اس کے بعد کہ انہیں زخم لگ چکے تھے، ان میں سے جنہوں نے نیکی کی اور پرہیز گاری اختیار کی، ان کے لیے بہت زیادہ اجر ہے۔ (2) اس آیت میں غزوہ احد کے بعد کے حالات کی طرف اشارہ ہے۔ مشرکین جب واپس ہوئے تو راستے میں انہیں خیال آیا کہ ہم نے مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کا موقع گنوا دیا ہے، چنانچہ انہوں نے واپس پلٹ کر حملہ کرنے کا ارادہ کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ خطرہ محسوس کیا کہ مکی لشکر دوبارہ حملہ کرنے کی کوشش کر سکتا ہے، چنانچہ آپ نے اعلان فرما دیا کہ جنگ احد میں حصہ لینے والے تمام مجاہد دوبارہ کوچ کریں۔ آپ نے آٹھ میل دور حمراء الاسد تک تعاقب کیا، جب مشرکین کو یہ خبر پہنچی تو وہ مرعوب ہو گئے اور مدینہ پر حملہ کیے بغیر واپس چلے گئے۔ (دیکھیے: الرحیق المختوم،ص:386) (3) حضرت عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے ہیں۔ ان کی والدہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا ہیں۔ اس طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نانا اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ان کے والد ہوئے۔
(1) اس حدیث سے قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ کی طرف اشارہ ہے: (الَّذينَ استَجابوا لِلَّهِ وَالرَّسولِ مِن بَعدِ ما أَصابَهُمُ القَرحُ لِلَّذينَ أَحسَنوا مِنهُم وَاتَّقَوا أَجرٌ عَظيمٌ) (آل عمران: 172) جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو قبول کیا، اس کے بعد کہ انہیں زخم لگ چکے تھے، ان میں سے جنہوں نے نیکی کی اور پرہیز گاری اختیار کی، ان کے لیے بہت زیادہ اجر ہے۔ (2) اس آیت میں غزوہ احد کے بعد کے حالات کی طرف اشارہ ہے۔ مشرکین جب واپس ہوئے تو راستے میں انہیں خیال آیا کہ ہم نے مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کا موقع گنوا دیا ہے، چنانچہ انہوں نے واپس پلٹ کر حملہ کرنے کا ارادہ کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ خطرہ محسوس کیا کہ مکی لشکر دوبارہ حملہ کرنے کی کوشش کر سکتا ہے، چنانچہ آپ نے اعلان فرما دیا کہ جنگ احد میں حصہ لینے والے تمام مجاہد دوبارہ کوچ کریں۔ آپ نے آٹھ میل دور حمراء الاسد تک تعاقب کیا، جب مشرکین کو یہ خبر پہنچی تو وہ مرعوب ہو گئے اور مدینہ پر حملہ کیے بغیر واپس چلے گئے۔ (دیکھیے: الرحیق المختوم،ص:386) (3) حضرت عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے ہیں۔ ان کی والدہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا ہیں۔ اس طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نانا اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ان کے والد ہوئے۔