Book - حدیث 121

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ فَضْلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍؓ صحیح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: قَدِمَ مُعَاوِيَةُ فِي بَعْضِ حَجَّاتِهِ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ سَعْدٌ، فَذَكَرُوا عَلِيًّا، فَنَالَ مِنْهُ، فَغَضِبَ سَعْدٌ، وَقَالَ: تَقُولُ هَذَا لِرَجُلٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ» وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي» ، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ الْيَوْمَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ»

ترجمہ Book - حدیث 121

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: حضرت علی بن ابی طالب کے فضائل و مناقب حضرت سعد بن ابو وقاص ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک بار سیدنا معاویہ ؓ حج کے لئے تشریف لائے تو سعد ؓ ان کے پاس( ملاقات کے لئے) گئے۔ (اثنائے گفتگو میں) حضرت علی ؓ کا تذکرہ چھڑ گیا۔ سیدنا معاویہ ؓ نے ان کے متعلق کچھ تنقیدی الفاظ کہے۔ سعد ؓ کو غصہ آگیا اور فرمایا: آپ ایسے شخص کے بارے میں یہ بات کہہ رہے ہیں جس کے متعلق میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے:’’ جس کا مولیٰ میں ہوں، علی ؓ بھی اس کا مولیٰ( دوست) ہے۔‘‘ اور میں نے آپ ﷺ سے سنا کہ آپ نے ( علی ؓ سے ) فرمایا:’’ تیرا مجھ سے وہی تعلق ہے جو ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام سے تھا، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ اور میں نے آپ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا:’’آج میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ سے اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے۔ (اور وہ جھنڈا علی ؓ کو ملا)۔
تشریح : (1) حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان بعض اختلافات ہوئے تھے، جن کی وجہ سے بعض مفسدین کی ریشہ دوانیوں سے جنگ و جدل تک نوبت پہنچی۔ یہ محض اجتہادی اختلاف تھا، اس بنا پر ہم لوگوں کے لیے جائز نہیں کہ کسی صحابی کے حق میں زبان طعن دراز کریں۔ (2) کسی کی عدم موجودی میں اس پر تنقید مناسب نہیں۔ (3) اگر کسی شخص پ اس کی عدم موجودگی میں تنقید کی جائے تو حاضرین کو چاہیے کہ اس کے حق میں بات کریں اور اس کی خوبیاں ذکر کریں۔ (3) اس حدیث میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعدد فضائل مذکور ہیں۔ جن میں سے بعض کی تفصیل گزشتہ احادیث میں بیان ہو چکی ہے۔ (1) حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان بعض اختلافات ہوئے تھے، جن کی وجہ سے بعض مفسدین کی ریشہ دوانیوں سے جنگ و جدل تک نوبت پہنچی۔ یہ محض اجتہادی اختلاف تھا، اس بنا پر ہم لوگوں کے لیے جائز نہیں کہ کسی صحابی کے حق میں زبان طعن دراز کریں۔ (2) کسی کی عدم موجودی میں اس پر تنقید مناسب نہیں۔ (3) اگر کسی شخص پ اس کی عدم موجودگی میں تنقید کی جائے تو حاضرین کو چاہیے کہ اس کے حق میں بات کریں اور اس کی خوبیاں ذکر کریں۔ (3) اس حدیث میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعدد فضائل مذکور ہیں۔ جن میں سے بعض کی تفصیل گزشتہ احادیث میں بیان ہو چکی ہے۔