كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ تَعْظِيمِ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِﷺ وَالتَّغْلِيظِ عَلَى مَنْ عَارَضَهُ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ جَابِرٍ عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِيكَرِبَ الْكِنْدِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يُوشِكُ الرَّجُلُ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يُحَدَّثُ بِحَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِي فَيَقُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مَا وَجَدْنَا فِيهِ مِنْ حَلَالٍ اسْتَحْلَلْنَاهُ وَمَا وَجَدْنَا فِيهِ مِنْ حَرَامٍ حَرَّمْنَاهُ أَلَّا وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ
کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت
باب: حدیث رسول ﷺ کی تعظیم اور اس کی مخالفت کرنے والے پر سختی کرنے کا بیان
حضرت مقدام بن معدی کرب کندی ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:‘‘عنقریب(ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ) آدمی اپنے تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہوگا، اسے میری کوئی حدیث سنائی جائے گی تو کہے گا: ہمارے اور تمہارے درمیان (فیصلہ کرنے والی) اللہ عزوجل کی کتاب ہے۔ ہمیں اس میں جو چیز حلال ملے گی، اسے حلال مانیں گے اور جو چیز اس میں حرام پائیں گے ،ہم اسے حرام قرار دیں گے۔ سن لو! جو کچھ اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے حرام فرمایا، وہ بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح اللہ کا حرام کیا ہوا۔’’
تشریح :
(1) (اريكة) لغت میں اس چارپائی یا تخت کو کہتے ہیں جسے مزین کر کے رکھا گیا ہو۔ اہل عرب نئی دلہن کے لیے پردوں وغیرہ سے مزین کر کے جو چارپائی تیار کرتے تھے، اسے بھی (اريكه) کہتے ہیں۔ اس میں اشارہ ہے کہ حدیث کا انکار کرنا، بھرے پیٹ والے نازونعمت کے شیدائیوں کا کام ہے جو آراستہ پلنگ یا تخت پر ٹیک لگا کر بیٹھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ (2) مولاان وحید الزمان خان رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے کہ یہ پیش گوئی عبداللہ چکڑالوی پر صادق آتی ہے، جو برصغیر پاک و ہند میں انکار حدیث کا فتنہ کھڑا کرنے والوں کا ایک سرغنہ تھا۔ مولانا فرماتے ہیں: اس حدیث مین منکرین حدیث کے بانی عبداللہ چکڑالوی کی طرف بھی اشارات پائے جاتے ہیں، جو لفظ بلفظ پورے ہوئے۔ جن لوگوں نے عبداللہ چکڑالوی کو شیخ چٹو کے طویلے میں پلنگ پر تکیہ لگائے دیکھا ہے وہ آج بھی عینی شہادت دے سکتے ہیں کہ یہ حدیث لفظ بلفظ پوری ہو گئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مضمون وحی ہوتا تھا، ورنہ آپ کی پیش گوئی لفظ بلفظ پوری نہ ہوتی۔ (ترجمہ سنن ابن ماجہ از وحید الزمان خاں۔ حاشیہ حدیث ہزا) (3) جس طرح قرآن مجید کے احکام پر عمل کرنا فرض ہے اور قرآن مجید میں منع کیے ہوئے کاموں کا ارتکاب حرام ہے، اسی طرح حدیث سے بھی فرضیت اور حرمت ثابت ہوتی ہے۔ دونوں میں فرق کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔ قرآن مجید مین بعض خواتین سے نکاح کرنا حرام قرار دیا گیا ہے، مثلا ماں کی بہن، بیٹی وغیرہ، جبکہ حدیث سے خالہ اور بھانجی یا پھوپھی اور بھتیجی کو بیک وقت نکاح مین رکھنا بھی حرام ثابت ہوتا ہے۔ ان دونوں کی حرمت میں کوئی فرق نہیں۔ اسی طرح نماز کے لیے کعبہ شریف کو قبلہ قرار دیے جانے کی آیات نازل ہونے سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے، کیونکہ اس وقت یوں ہی نماز ادا کرنا فرض تھا، حالانکہ یہ حکم قرآن مجید میں نازل نہیں ہوا تھا۔
(1) (اريكة) لغت میں اس چارپائی یا تخت کو کہتے ہیں جسے مزین کر کے رکھا گیا ہو۔ اہل عرب نئی دلہن کے لیے پردوں وغیرہ سے مزین کر کے جو چارپائی تیار کرتے تھے، اسے بھی (اريكه) کہتے ہیں۔ اس میں اشارہ ہے کہ حدیث کا انکار کرنا، بھرے پیٹ والے نازونعمت کے شیدائیوں کا کام ہے جو آراستہ پلنگ یا تخت پر ٹیک لگا کر بیٹھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ (2) مولاان وحید الزمان خان رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے کہ یہ پیش گوئی عبداللہ چکڑالوی پر صادق آتی ہے، جو برصغیر پاک و ہند میں انکار حدیث کا فتنہ کھڑا کرنے والوں کا ایک سرغنہ تھا۔ مولانا فرماتے ہیں: اس حدیث مین منکرین حدیث کے بانی عبداللہ چکڑالوی کی طرف بھی اشارات پائے جاتے ہیں، جو لفظ بلفظ پورے ہوئے۔ جن لوگوں نے عبداللہ چکڑالوی کو شیخ چٹو کے طویلے میں پلنگ پر تکیہ لگائے دیکھا ہے وہ آج بھی عینی شہادت دے سکتے ہیں کہ یہ حدیث لفظ بلفظ پوری ہو گئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مضمون وحی ہوتا تھا، ورنہ آپ کی پیش گوئی لفظ بلفظ پوری نہ ہوتی۔ (ترجمہ سنن ابن ماجہ از وحید الزمان خاں۔ حاشیہ حدیث ہزا) (3) جس طرح قرآن مجید کے احکام پر عمل کرنا فرض ہے اور قرآن مجید میں منع کیے ہوئے کاموں کا ارتکاب حرام ہے، اسی طرح حدیث سے بھی فرضیت اور حرمت ثابت ہوتی ہے۔ دونوں میں فرق کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔ قرآن مجید مین بعض خواتین سے نکاح کرنا حرام قرار دیا گیا ہے، مثلا ماں کی بہن، بیٹی وغیرہ، جبکہ حدیث سے خالہ اور بھانجی یا پھوپھی اور بھتیجی کو بیک وقت نکاح مین رکھنا بھی حرام ثابت ہوتا ہے۔ ان دونوں کی حرمت میں کوئی فرق نہیں۔ اسی طرح نماز کے لیے کعبہ شریف کو قبلہ قرار دیے جانے کی آیات نازل ہونے سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے، کیونکہ اس وقت یوں ہی نماز ادا کرنا فرض تھا، حالانکہ یہ حکم قرآن مجید میں نازل نہیں ہوا تھا۔