Book - حدیث 119

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ فَضْلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍؓ حسن حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى، قَالُوا: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «عَلِيٌّ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ، وَلَا يُؤَدِّي عَنِّي إِلَّا عَلِيٌّ»

ترجمہ Book - حدیث 119

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: حضرت علی بن ابی طالب کے فضائل و مناقب حضرت حُبشی بن جنادہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے:’’ علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں، میری طرف سے صرف علی ؓ ہی ادا کریں گے۔‘‘
تشریح : (1) علی مجھ سے ہے۔ اس جملے سے مقصود انتہائی قرابت اور گہرے تعلق کا اظہار ہے، جیسے حضرت طالوت نے اپنے مومن ہمراہیوں سے فرمایا تھا: (إِنَّ اللَّهَ مُبتَليكُم بِنَهَرٍ‌ فَمَن شَرِ‌بَ مِنهُ فَلَيسَ مِنّى وَمَن لَم يَطعَمهُ فَإِنَّهُ مِنّى) (البقرۃ: 249) اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر سے آزمانے والا ہے، جس نے اس سے (پانی) پی لیا، وہ مجھ سے نہیں، اور جو اسے نہ چکھے، وہ مجھ سے ہے (میرا مخلص ساتھی ہے۔ ) (2) ادا کرنے سے مراد پیغام پہنچانا اور اعلام کرنا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے سورہ برات نازل فرمائی اور اس میں کافروں کو چار مہینے کا الٹی میٹم دے دیا گیا کہ اس عرصہ میں اسلام قبول کر لیں یا جزیرہ عرب سے نکل جائیں، تو ان آیات کا اعلان کرنے کے لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنھم نے عرض کیا کہ معاہدہ ختم کرنے کے لیے آپ کا قریبی رشتہ دار ہونا چاہیے کہ عرب اپنے رواج کے مطابق اس کے اعلان کو کما حقہ اہمیت دے سکیں، اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ اعلان کرنے کے لیے بھیجا گیا کہ آئندہ مشرک حرم مکی میں نہ آئین اور کوئی شخص بے لباس ہو کر طواف نہ کرے اور یہ کہ مشرکین کے لیے چار ماہ کی مہلت ہے، اس عرصہ میں اگر وہ مسلمان نہ ہوئے تو انہیں ملک سے نکال دیا جائے گا۔ اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چونکہ علی رضی اللہ عنہ کا مجھ سے قرابت کا تعلق زیادہ ہے، اس لیے یہ ہم اعلان وہی کریں گے۔ (3) اس سے زندگی میں مالی حقوق کی ادائیگی بھی مراد ہو سکتی ہے، یعنی انہیں اختیار دیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خرید و فروخت وغیرہ کے معاملات نپٹائیں۔وفات کے بعد ان حقوق کی ادائیگی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کی تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر کسی کو کچھ عطا فرمانے کا دعوہ کیا تھا اور اسے پورا کرنے کا موقع نہ ملا یا کوئی اور مالی ذمہ داری تھی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ککی وفات کے بعد ان تمام کی ادائیگی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کی۔ (صحيح البخاري‘ الكفالة‘ باب من تكفل عن ميت دينا فليس له ان يرجع‘ حديث:2296) (1) علی مجھ سے ہے۔ اس جملے سے مقصود انتہائی قرابت اور گہرے تعلق کا اظہار ہے، جیسے حضرت طالوت نے اپنے مومن ہمراہیوں سے فرمایا تھا: (إِنَّ اللَّهَ مُبتَليكُم بِنَهَرٍ‌ فَمَن شَرِ‌بَ مِنهُ فَلَيسَ مِنّى وَمَن لَم يَطعَمهُ فَإِنَّهُ مِنّى) (البقرۃ: 249) اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر سے آزمانے والا ہے، جس نے اس سے (پانی) پی لیا، وہ مجھ سے نہیں، اور جو اسے نہ چکھے، وہ مجھ سے ہے (میرا مخلص ساتھی ہے۔ ) (2) ادا کرنے سے مراد پیغام پہنچانا اور اعلام کرنا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے سورہ برات نازل فرمائی اور اس میں کافروں کو چار مہینے کا الٹی میٹم دے دیا گیا کہ اس عرصہ میں اسلام قبول کر لیں یا جزیرہ عرب سے نکل جائیں، تو ان آیات کا اعلان کرنے کے لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنھم نے عرض کیا کہ معاہدہ ختم کرنے کے لیے آپ کا قریبی رشتہ دار ہونا چاہیے کہ عرب اپنے رواج کے مطابق اس کے اعلان کو کما حقہ اہمیت دے سکیں، اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ اعلان کرنے کے لیے بھیجا گیا کہ آئندہ مشرک حرم مکی میں نہ آئین اور کوئی شخص بے لباس ہو کر طواف نہ کرے اور یہ کہ مشرکین کے لیے چار ماہ کی مہلت ہے، اس عرصہ میں اگر وہ مسلمان نہ ہوئے تو انہیں ملک سے نکال دیا جائے گا۔ اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چونکہ علی رضی اللہ عنہ کا مجھ سے قرابت کا تعلق زیادہ ہے، اس لیے یہ ہم اعلان وہی کریں گے۔ (3) اس سے زندگی میں مالی حقوق کی ادائیگی بھی مراد ہو سکتی ہے، یعنی انہیں اختیار دیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خرید و فروخت وغیرہ کے معاملات نپٹائیں۔وفات کے بعد ان حقوق کی ادائیگی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کی تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر کسی کو کچھ عطا فرمانے کا دعوہ کیا تھا اور اسے پورا کرنے کا موقع نہ ملا یا کوئی اور مالی ذمہ داری تھی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ککی وفات کے بعد ان تمام کی ادائیگی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کی۔ (صحيح البخاري‘ الكفالة‘ باب من تكفل عن ميت دينا فليس له ان يرجع‘ حديث:2296)