كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابُ مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ آخِرَ اللَّيْلِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ وَثَّابٍ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ مِنْ كُلِّ اللَّيْلِ قَدْ أَوْتَرَ مِنْ أَوَّلِهِ وَأَوْسَطِهِ وَانْتَهَى وِتْرُهُ حِينَ مَاتَ فِي السَّحَرِ
کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ
باب: رات کے آخری حصے میں وتر پڑھنا
سیدنا مسروق ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے ام المومنین سیدہ عائشہ ؓا سے رسول اللہ ﷺ کی نماز وتر کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے رات کے ہر حصے میں وتر پڑھے ہیں، رات کے شروع میں بھی اور درمیان میں بھی اور جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو( ان دنوں ) آپ کے وتر ( عام طور پر) سحر کے وقت ختم ہوتے تھے۔
تشریح :
1۔وتر کا وقت تہجد کے بعد ہے۔رات کے ہر حصے میں وتر پڑھنے سے رات کے ہر حصے میں تہجد پڑھنا ثابت ہوتا ہے۔2۔رسول اللہ ﷺ کا غالب معمول رات کے نصف آخر میں جاگنے کا تھا۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ۔رسول اللہ ﷺ ر ات کے پہلے حصے میں سوتے اور آخری حصے میں اُٹھ کرنماز پڑھتے تھے۔پھر اپنے بستر پر آرام فرماتے تھے۔جب موذن اذان دیتا تو جلدی سے اٹھ کھڑے ہوتے ۔۔۔(صحیح البخاری التھجد۔باب من نام اول اللیل واحیا آخرہ۔حدیث 1146)یہ صورت غالبا ً وہی ہے۔جس کا زکر اس حدیث مُبارک میں ہے۔ اللہ کو سب سے محبوب نماز دائود علیہ السلام کی نماز ہے۔اوراللہ کو سب سے محبوب روزہ دائود علیہ السلام کا روزہ ہے۔و ہ نصف رات سوتے(پھر ) تہائی رات قیام فرماتے (پھر )رات کا چھٹا حصہ سوتے تھے۔اور ایک دن روزہ رکھتے ایک دن نہیں رکھتے تھے۔(صحیح البخاری التجہد باب من نام عدن السحر حدیث 1131۔3۔رسول اللہ ﷺنے آخری عمر میں جو معمول اختیار فرمایا وہ صبح صادق تک نماز پڑھنے کاتھا تاہم فجر کی سنتیں پڑھ کر تھوڑی دیرلیٹ جاتے تھے۔
1۔وتر کا وقت تہجد کے بعد ہے۔رات کے ہر حصے میں وتر پڑھنے سے رات کے ہر حصے میں تہجد پڑھنا ثابت ہوتا ہے۔2۔رسول اللہ ﷺ کا غالب معمول رات کے نصف آخر میں جاگنے کا تھا۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ۔رسول اللہ ﷺ ر ات کے پہلے حصے میں سوتے اور آخری حصے میں اُٹھ کرنماز پڑھتے تھے۔پھر اپنے بستر پر آرام فرماتے تھے۔جب موذن اذان دیتا تو جلدی سے اٹھ کھڑے ہوتے ۔۔۔(صحیح البخاری التھجد۔باب من نام اول اللیل واحیا آخرہ۔حدیث 1146)یہ صورت غالبا ً وہی ہے۔جس کا زکر اس حدیث مُبارک میں ہے۔ اللہ کو سب سے محبوب نماز دائود علیہ السلام کی نماز ہے۔اوراللہ کو سب سے محبوب روزہ دائود علیہ السلام کا روزہ ہے۔و ہ نصف رات سوتے(پھر ) تہائی رات قیام فرماتے (پھر )رات کا چھٹا حصہ سوتے تھے۔اور ایک دن روزہ رکھتے ایک دن نہیں رکھتے تھے۔(صحیح البخاری التجہد باب من نام عدن السحر حدیث 1131۔3۔رسول اللہ ﷺنے آخری عمر میں جو معمول اختیار فرمایا وہ صبح صادق تک نماز پڑھنے کاتھا تاہم فجر کی سنتیں پڑھ کر تھوڑی دیرلیٹ جاتے تھے۔