Book - حدیث 1178

كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابُ مَا جَاءَ فِي الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ عَنْ أَبِي الْحَوْرَاءِ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ عَلَّمَنِي جَدِّي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلِمَاتٍ أَقُولُهُنَّ فِي قُنُوتِ الْوِتْرِ اللَّهُمَّ عَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ وَاهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ إِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ إِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ سُبْحَانَكَ رَبَّنَا تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ

ترجمہ Book - حدیث 1178

کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ باب: (نماز)وتر میں دعائے قنوت کا بیان سیدنا حسن بن علی ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: مجھے میرے نانا جناب رسول اللہ ﷺ نے یہ الفاظ سکھائے تھے کہ انہیں وتروں کے قنوت میں پڑھا کروں:( اللَّهُمَّ عَافِنِى فِيمَنْ عَافَيْتَ وَتَوَلَّنِى فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ وَاهْدِنِى فِيمَنْ هَدَيْتَ وَقِنِى شَرَّ مَا قَضَيْتَ وَبَارِكْ لِى فِيمَا أَعْطَيْتَ إِنَّكَ تَقْضِى وَلاَ يُقْضَى عَلَيْكَ إِنَّهُ لاَ يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ سُبْحَانَكَ رَبَّنَا تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ)’’اے اللہ! تو جنہیں عافیت بخشتا ہے، مجھے بھی ان میں( شامل کر کے) عافیت بخش اور جن سے تو محبت رکھتا ہے ان میں( شامل کر کے) مجھ سے محبت رکھ اور جنہیں تو نے ہدایت دی، ان میں( شامل کر کے) مجھے بھی ہدایت دے اور تو نے جو بھی فیصلہ کیا ہے اس کے شر سے مجھے محفوظ فر اور جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے اس میں برکت عطا فر اور جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے اس میں برکت عطا فرما، یقیناً تو ہی فیصلے کرتا ہے، تیرے مقابلے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوتا اور جسے تو دوست رکھے وہ کہیں ذلیل نہیں ہو سکتا، اے ہمارے رب تو پاک ہے، تو برکتوں والا اور رفعتوں والا ہے۔‘‘
تشریح : 1۔یہاں دعائے قنوت کا بیان نہیں کیا گیا۔کہ رکوع سے پہلے ہے ہے یا بعد میں مستدرک حاکم کی روایت میں رکوع سے بعد کی صراحت ہے۔(المستدرک 172/3) لیکن یہ روایت سنداًضعیف ہے۔اس کے مقابلے میں زیادہ صحیح روایات میں دعائے قنوت وتر کا مقام رکوع سے پہلے بیان ہوا ہے۔اس لئے یہی راحج ہے۔اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔2۔بعض روایات میں اس دعا میں مذید الفاظ بھی ہیں۔سنن بیہقی اور سنن ابو دائود کے بعض نسخوں میں(والیت ) کے بعد ہے۔(ولایعز من عادیت) تو جس سے دشمنی کرے اسے عزت نہیں مل سکتی (سنن ابی دائود الوتر باب قنوت فی الوتر حدیث 1435 والسنن الکبریٰ للبہیقی 309/2)سنن نسائی کی روایت 1747 کے آخر میں یہ جملہ ہے۔(وصلي الله علي النبي محمد) اور اللہ تعالیٰ نبی کریمﷺ پر رحمت نازل فرمائے۔ لیکن حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ اور امام زرقانی رحمۃ اللہ علیہ نے ان الفاظ کو ضعیف قرار دیا ہے تاہم ان الفاظ کو دعا کے آخر میں پڑھ لینے میں کچھ قباحت نہیں کیونکہ ابو حلیمہ معاذ انصاری کے بارے میں ہے کہ وہ قنوت وتر میں رسول اللہ ﷺ پر درود سلام پڑھا کرتے تھے۔دیکھئے۔(فضل الصلاۃ علی النبی ﷺ ازاسماعیل قاضی رقم 107)اور یہ واقعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور کا ہے۔اس اثر کو حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح قراردیا ہے۔دیکھئے۔(صفۃ الصلاۃ نبی ص 180)اسی طرح حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ قنوت وتر میں نبی کریمﷺ پردرود وسلام پڑھا کرتے تھے۔اس اثر کی سند بھی صحیح ہے۔اسے امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح قرار دیا ہے۔دیکھئے۔(صفۃ الصلاۃ النبی ﷺ ص 180۔)3۔(نستغفرك ونتوب اليك)کے الفاظ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔لہذا ان الفاظ کودوران دعا میں پڑھنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔4۔یہ ایک عظیم دعا ہے جس میں توحید کے مختلف پہلودعا کے انداز میں واضح کئے گئے ہیں۔مومن کو چاہیے کہ توحید کاعقیدہ اس کے مطابق رکھے۔ 1۔یہاں دعائے قنوت کا بیان نہیں کیا گیا۔کہ رکوع سے پہلے ہے ہے یا بعد میں مستدرک حاکم کی روایت میں رکوع سے بعد کی صراحت ہے۔(المستدرک 172/3) لیکن یہ روایت سنداًضعیف ہے۔اس کے مقابلے میں زیادہ صحیح روایات میں دعائے قنوت وتر کا مقام رکوع سے پہلے بیان ہوا ہے۔اس لئے یہی راحج ہے۔اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔2۔بعض روایات میں اس دعا میں مذید الفاظ بھی ہیں۔سنن بیہقی اور سنن ابو دائود کے بعض نسخوں میں(والیت ) کے بعد ہے۔(ولایعز من عادیت) تو جس سے دشمنی کرے اسے عزت نہیں مل سکتی (سنن ابی دائود الوتر باب قنوت فی الوتر حدیث 1435 والسنن الکبریٰ للبہیقی 309/2)سنن نسائی کی روایت 1747 کے آخر میں یہ جملہ ہے۔(وصلي الله علي النبي محمد) اور اللہ تعالیٰ نبی کریمﷺ پر رحمت نازل فرمائے۔ لیکن حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ اور امام زرقانی رحمۃ اللہ علیہ نے ان الفاظ کو ضعیف قرار دیا ہے تاہم ان الفاظ کو دعا کے آخر میں پڑھ لینے میں کچھ قباحت نہیں کیونکہ ابو حلیمہ معاذ انصاری کے بارے میں ہے کہ وہ قنوت وتر میں رسول اللہ ﷺ پر درود سلام پڑھا کرتے تھے۔دیکھئے۔(فضل الصلاۃ علی النبی ﷺ ازاسماعیل قاضی رقم 107)اور یہ واقعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور کا ہے۔اس اثر کو حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح قراردیا ہے۔دیکھئے۔(صفۃ الصلاۃ نبی ص 180)اسی طرح حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ قنوت وتر میں نبی کریمﷺ پردرود وسلام پڑھا کرتے تھے۔اس اثر کی سند بھی صحیح ہے۔اسے امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح قرار دیا ہے۔دیکھئے۔(صفۃ الصلاۃ النبی ﷺ ص 180۔)3۔(نستغفرك ونتوب اليك)کے الفاظ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔لہذا ان الفاظ کودوران دعا میں پڑھنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔4۔یہ ایک عظیم دعا ہے جس میں توحید کے مختلف پہلودعا کے انداز میں واضح کئے گئے ہیں۔مومن کو چاہیے کہ توحید کاعقیدہ اس کے مطابق رکھے۔