كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ فَضْلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍؓ صحیح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ قَالَ: أَخْبَرَنِي حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّتِهِ الَّتِي حَجَّ، فَنَزَلَ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ، فَأَمَرَ الصَّلَاةَ جَامِعَةً، فَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ، فَقَالَ: «أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟» قَالُوا: بَلَى، قَالَ: «أَلَسْتُ أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ؟» قَالُوا: بَلَى، قَالَ: «فَهَذَا وَلِيُّ مَنْ أَنَا مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، اللَّهُمَّ عَادِ مَنْ عَادَاهُ»
کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت
باب: حضرت علی بن ابی طالب کے فضائل و مناقب
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے جو حض ادا فرمایا، اس سے واپسی پر سفر میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ آپ نے راستے میں ایک مقام پر پڑاؤ ڈالا اور نماز میں سب کو جمع ہونے کا حکم دیا۔( نماز کے بعد) آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:’’کیا مومنوں پر میرا خود ان کی جانوں سے زیادہ حق نہیں؟‘‘ انہوں نے کہا: کیوں نہیں۔ پھر فرمایا:’’ کیا ہر مومن پر میرا خود اس کی ذات سے زیادہ حق نہیں؟‘‘ صحابہ نے کہا: یقیناً ہے۔ تو آپ نے فرمایا:’’ جس کا میں دوست ہوں، یہ بھی اس کا دوست ہے۔ اے اللہ! جو اس( علی) سے دوستی رکھے تو اسے سے دوستی رکھ۔ اے اللہ! جو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ۔‘‘
تشریح :
(1) حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضلیت میں یہ کلمات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمائے تھے جب حجۃ الوداع سے واپس پر غدیرخم مقام پر پہنچے تھے۔ اس محبت و موالات کو بیان کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب یمن سے واپس آئے تو کچھ لوگ ان پر شاکی تھے۔ (2) بعض لوگوں نے اس حدیث سے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ دوستی کا خلافت سے کوئی تعلق نہیں۔ (3) اس سے خوارج کی، جنہوں نے علی کی فضیلت کا انکار کیا اور ان غالی شیعہ کی مذمت ثابت ہوتی ہے، جنہوں نے حجرت علی رضی اللہ عنہ کو ان کی زندی میں خدا کہا تھا، چنانچہ حجرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں سزائے موت دی۔ دیکھئے: (صحيح ا;بخاري‘ استتابة المرتدين‘ حديث:6922) (4) اس حدیث سے صرف یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی محبت رکھنا ضروری ہے، نہ کہ بغض و عناد۔ (5) بعض کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے۔ دیکھیے، (الصحيحة‘ حديث:1750)
(1) حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضلیت میں یہ کلمات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمائے تھے جب حجۃ الوداع سے واپس پر غدیرخم مقام پر پہنچے تھے۔ اس محبت و موالات کو بیان کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب یمن سے واپس آئے تو کچھ لوگ ان پر شاکی تھے۔ (2) بعض لوگوں نے اس حدیث سے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ دوستی کا خلافت سے کوئی تعلق نہیں۔ (3) اس سے خوارج کی، جنہوں نے علی کی فضیلت کا انکار کیا اور ان غالی شیعہ کی مذمت ثابت ہوتی ہے، جنہوں نے حجرت علی رضی اللہ عنہ کو ان کی زندی میں خدا کہا تھا، چنانچہ حجرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں سزائے موت دی۔ دیکھئے: (صحيح ا;بخاري‘ استتابة المرتدين‘ حديث:6922) (4) اس حدیث سے صرف یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی محبت رکھنا ضروری ہے، نہ کہ بغض و عناد۔ (5) بعض کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے۔ دیکھیے، (الصحيحة‘ حديث:1750)