Book - حدیث 114

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ فَضْلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍؓ صحیح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَّهُ لَا يُحِبُّنِي إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يُبْغِضُنِي إِلَّا مُنَافِقٌ»

ترجمہ Book - حدیث 114

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: حضرت علی بن ابی طالب کے فضائل و مناقب حضرت علی ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: نبی امی ﷺ نے مجھے بالتاکید خبر دی کہ مجھ سے صرف مومن ہی محبت رکھے گااور مجھ سے صرف منافق ہی نفرت کرے گا۔
تشریح : 01) کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اسلام کی خدمت اور دفاع میں بے مثال کارنامے انجام دیے ہیں، اس لیے اسلام سے محبت رکھنے والے ہر شخص کے دل میں ان کی محبت اور قدرومنزلت ہے۔ اور اسلام کے دشمنوں کے لیے ان کا وجود سوہان روح تھا۔ ایسے ہی عظیم افراد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ہیں، اس لیے ان سے محبت، ایمان کی علامت اور ان سے دشمنی منافقت کی علامت ہے۔ (2) محبت سے مراد وہ غلو نہیں جو بعض اہل بدعت میں پایا جاتا ہے، مثلا: بعض بت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نبیوں کی طرح معصوم قرار دے دیا۔ بعض نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے افضل قرار دے دیا۔ بعض ان میں خدائی صفات کے قائل ہوئے اور بعض نے انہیں خود خدا ہی قرار دے دیا جو انسانی صورت میں زمین پر اتر آیا۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام کی نذرونیاز یا مصائب و مشکلات میں انہین پکارنا، یا علی، یا علی مدد کے نعرے لگانا اور ناد علی وغیرہ کے اذکار پڑھنا، ہاتھ کے ایک پنجے کی شکل بنا کر اسے علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دیتے ہوئے حل مشکلات کا باعث سمجھنا، سب شرکیہ اعمال ہیں جن کا حضرت علی رضی اللہ نے حکم دیا ہے نہ وہ ان سے راضی ہین۔ ان امور کا اس محبت سے کوئی تعلق نہیں جو ایمان کی علامت ہے۔ (3) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں جو اختلافات ہوئے وہ اجتہادی اختلافات تھے، اگرچہ ان میں سے بعض کا نتیجہ، منافقین کی سازشوں کی وجہ سے، جنگ و جدال کی صورت میں بھی ظاہر ہوا۔ ان مشاجرات کی وجہ سے کسی صحابی کو منافق قرار دینا بہت بڑی جسارت ہے اور یہ اہل بدعت کی علامت ہے۔ اہل سنت کے نزدیک ان مشاجرات کے بارے مین کف لسان (کاموش رہنا اور ایک دوسرے کو خطا کار قرار نہ دینا) بہتر ہے۔ 01) کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اسلام کی خدمت اور دفاع میں بے مثال کارنامے انجام دیے ہیں، اس لیے اسلام سے محبت رکھنے والے ہر شخص کے دل میں ان کی محبت اور قدرومنزلت ہے۔ اور اسلام کے دشمنوں کے لیے ان کا وجود سوہان روح تھا۔ ایسے ہی عظیم افراد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ہیں، اس لیے ان سے محبت، ایمان کی علامت اور ان سے دشمنی منافقت کی علامت ہے۔ (2) محبت سے مراد وہ غلو نہیں جو بعض اہل بدعت میں پایا جاتا ہے، مثلا: بعض بت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نبیوں کی طرح معصوم قرار دے دیا۔ بعض نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے افضل قرار دے دیا۔ بعض ان میں خدائی صفات کے قائل ہوئے اور بعض نے انہیں خود خدا ہی قرار دے دیا جو انسانی صورت میں زمین پر اتر آیا۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام کی نذرونیاز یا مصائب و مشکلات میں انہین پکارنا، یا علی، یا علی مدد کے نعرے لگانا اور ناد علی وغیرہ کے اذکار پڑھنا، ہاتھ کے ایک پنجے کی شکل بنا کر اسے علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دیتے ہوئے حل مشکلات کا باعث سمجھنا، سب شرکیہ اعمال ہیں جن کا حضرت علی رضی اللہ نے حکم دیا ہے نہ وہ ان سے راضی ہین۔ ان امور کا اس محبت سے کوئی تعلق نہیں جو ایمان کی علامت ہے۔ (3) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں جو اختلافات ہوئے وہ اجتہادی اختلافات تھے، اگرچہ ان میں سے بعض کا نتیجہ، منافقین کی سازشوں کی وجہ سے، جنگ و جدال کی صورت میں بھی ظاہر ہوا۔ ان مشاجرات کی وجہ سے کسی صحابی کو منافق قرار دینا بہت بڑی جسارت ہے اور یہ اہل بدعت کی علامت ہے۔ اہل سنت کے نزدیک ان مشاجرات کے بارے مین کف لسان (کاموش رہنا اور ایک دوسرے کو خطا کار قرار نہ دینا) بہتر ہے۔