Book - حدیث 113

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ فَضْلِ عُثْمَانَؓ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ: «وَدِدْتُ أَنَّ عِنْدِي بَعْضَ أَصْحَابِي» قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا نَدْعُو لَكَ أَبَا بَكْرٍ؟ فَسَكَتَ، قُلْنَا: أَلَا نَدْعُو لَكَ عُمَرَ؟ فَسَكَتَ قُلْنَا: أَلَا نَدْعُو لَكَ عُثْمَانَ؟ قَالَ: «نَعَمْ» ، فَجَاءَ، فَخَلَا بِهِ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَلِّمُهُ، وَوَجْهُ عُثْمَانَ يَتَغَيَّرُ قَالَ: قَيْسٌ، فَحَدَّثَنِي أَبُو سَهْلَةَ مَوْلَى عُثْمَانَ، أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، قَالَ يَوْمَ الدَّارِ: «إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّ عَهْدًا، فَأَنَا صَائِرٌ إِلَيْهِ» وَقَالَ عَلِيٌّ فِي حَدِيثِهِ: «وَأَنَا صَابِرٌ عَلَيْهِ» ، قَالَ قَيْسٌ: فَكَانُوا يُرَوْنَهُ ذَلِكَ الْيَوْمَ

ترجمہ Book - حدیث 113

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: حضرت عثمان کے فضائل و مناقب سیدہ عائشہ ؓا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی( آخری) بیمار کے دوران میں فرمایا:’’میرا جی چاہتا ہے کہ میرے پاس میرا ایک صحابی ہو۔’’ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم ابو بکر ؓ کو بلا بھیجیں؟ آپ ﷺ خاموش ہو گئے۔ ہم نے کہا: عمر ؓ کو بلا لیں؟ آپ ﷺ خاموش رہے۔ ہم نے کہا: عثمان ؓ کو بلا لیں ؟ فرمایا:‘‘ہاں’’ حضرت عثمان ؓ حاضر ہوگئے۔ نبی ﷺ نے ان سے تنہائی میں گفتگو فرمائی۔ آپ ﷺ فرماتے جاتے اور عثمان ؓ کے چہرے کے تاٴثرات تبدیل ہوتے جاتے تھے۔ حضرت قیس ؓ کا بیان ہے کہ انہیں حضرت عثمان ؓ کے آزاد کردہ غلام حضرت ابو سہلہ ؓ نے بتایا کہ حضرت عثمان ؓ نے محاصرہ کے ایام میں فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے مجھ سے ایک وعدہ لیا ہے اور میں اس پر قائم ہوں۔ حضرت علی(بن محمد) نے اپنی حدیث میں کہا: میں صبر کرتے ہوئے اس پر قائم ہوں۔ حضرت قیس ؓ نے فرمایا: سب لوگ (صحابہ و تابعین ) کا خیال ہے کہ اس حدیث میں محاصرہ والے دن کی طرف اشارہ تھا۔
تشریح : (1) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائی مقرب اور ہم راز تھے۔ (2) وعدے سے مراد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت عثمان ط کو وہی وصیت ہے کہ مفسدین کے غلط مطالبات کے سامنے مت جھکنا اور صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنا۔ (3) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا اچاعت رسول کا جذبہ بے مثال ہے کہ اپنی جان دینا قبول فرمالیا، لیکن اہل باطل کے سامنے نہیں جھکے او اس کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب و احترام کا یہ حال ہے کہ باغیوں کے خلاف فوجی ایکشن سے صرف اس لیے پرہیز کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں خون ریزی نہ ہو۔ (4) آنے والے واقعات کی پیشگی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل ہے۔ (1) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائی مقرب اور ہم راز تھے۔ (2) وعدے سے مراد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت عثمان ط کو وہی وصیت ہے کہ مفسدین کے غلط مطالبات کے سامنے مت جھکنا اور صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنا۔ (3) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا اچاعت رسول کا جذبہ بے مثال ہے کہ اپنی جان دینا قبول فرمالیا، لیکن اہل باطل کے سامنے نہیں جھکے او اس کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب و احترام کا یہ حال ہے کہ باغیوں کے خلاف فوجی ایکشن سے صرف اس لیے پرہیز کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں خون ریزی نہ ہو۔ (4) آنے والے واقعات کی پیشگی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل ہے۔