Book - حدیث 112

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ فَضْلِ عُثْمَانَؓ صحیح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْفَرَجُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيِّ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا عُثْمَانُ، إِنْ وَلَّاكَ اللَّهُ هَذَا الْأَمْرَ يَوْمًا، فَأَرَادَكَ الْمُنَافِقُونَ أَنْ تَخْلَعَ قَمِيصَكَ الَّذِي قَمَّصَكَ اللَّهُ، فَلَا تَخْلَعْهُ» ، يَقُولُ: ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، قَالَ النُّعْمَانُ: فَقُلْتُ لِعَائِشَةَ: مَا مَنَعَكِ أَنْ تُعْلِمِي النَّاسَ بِهَذَا؟ قَالَتْ: أُنْسِيتُهُ

ترجمہ Book - حدیث 112

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: حضرت عثمان کے فضائل و مناقب حضرت نعمان بن بشیر ؓ نے حضرت عائشہ ؓا سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:‘‘ اے عثمان! اگر اللہ تعالیٰ کسی دن تجھے خلافت کی ذمہ داری بخشے، پھر منافق تجھ سے وہ قمیص اتروانا چاہیں جو اللہ نے تجھے پہنائی ہو، تو اسے مت اتارنا۔’’ آپ ﷺ نے تین بار یہی بات فرمائی۔ حضرت نعمان ؓ فرماتے ہیں: میں نے حضرت عائشہ ؓا سے کہا: آپ نے لوگوں کو یہ حدیث کیوں نہیں سنائی تھی؟ انہوں نے کہا: میں اسے بھلا دی گئی تھی۔
تشریح : (1) اس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ابتللا پیش آنے کی خبر ہے۔ جو اسی طرح پیش آئی جیسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل ہے۔ (2) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حجرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ برحق تھے۔ (3) ملک کا حکمران جب نظم و نسق سنبھالے ہوئے ہو، تو معمولی حیلے بہانوں سے اس کے خلاف تحریک چلا کر فتنہ و فساد برپا کرنا درست نہیں۔ اِلا یہ کہ وہ کفر و شرک کو تقویت دینے اور اسلام کے ضعف جیسے جرائم کا مرتکب ہو۔ (4) اس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مخالفین کے منافق ہونے کی صراحت ہے۔ (5) راوی کا بعض احادیث میں غلطی کر جانا یا بھول جانا اسے ضعیف قرار دینے کے لیے کافی نہیں، خصوصا جب کہ اسے بعد میں یاد آ جائے اور وہ اصلاح کر لے، البتہ جس شخص سے بکثرت غلطی ہوتی ہو، تو وہ حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے ضعیف قرار پاتا ہے۔ (1) اس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ابتللا پیش آنے کی خبر ہے۔ جو اسی طرح پیش آئی جیسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل ہے۔ (2) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حجرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ برحق تھے۔ (3) ملک کا حکمران جب نظم و نسق سنبھالے ہوئے ہو، تو معمولی حیلے بہانوں سے اس کے خلاف تحریک چلا کر فتنہ و فساد برپا کرنا درست نہیں۔ اِلا یہ کہ وہ کفر و شرک کو تقویت دینے اور اسلام کے ضعف جیسے جرائم کا مرتکب ہو۔ (4) اس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مخالفین کے منافق ہونے کی صراحت ہے۔ (5) راوی کا بعض احادیث میں غلطی کر جانا یا بھول جانا اسے ضعیف قرار دینے کے لیے کافی نہیں، خصوصا جب کہ اسے بعد میں یاد آ جائے اور وہ اصلاح کر لے، البتہ جس شخص سے بکثرت غلطی ہوتی ہو، تو وہ حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے ضعیف قرار پاتا ہے۔