Book - حدیث 1100

كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابُ مَا جَاءَ فِي وَقْتِ الْجُمُعَةِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ الْحَارِثِ قَالَ سَمِعْتُ إِيَاسَ بْنَ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجُمُعَةَ ثُمَّ نَرْجِعُ فَلَا نَرَى لِلْحِيطَانِ فَيْئًا نَسْتَظِلُّ بِهِ

ترجمہ Book - حدیث 1100

کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ باب: جمعے کا وقت سیدنا سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم لوگ نبی ﷺ کے ساتھ جمعے کی نماز پڑھ کر واپس لوٹتے تھے تو ہمیں دیواروں کا اتنا سایہ نہیں ملتا تھا کہ اس سائے میں چل سکیں۔
تشریح : 1۔جمعے کی نماز بھی ظہر کی طرح زوال کے فوراً بعد ادا کی جاتی ہے۔2۔جمعے کا خطبہ مختصر ہونے کی وجہ سے جلد فراغت ہوجاتی تھی۔جس کی وجہ سے دیواروں کا سایہ کافی نہیں ہوتا تھا۔بعض علماء نے اس سےیہ استنباط کیا ہے کہ جمعے کی نماز زوال سے پہلے ادا کی جاسکتی ہے لیکن یہ بات درست نہیں۔کیونکہ حجا میں گرمی کے موسم میں زوال کے وقت بالکل سایہ نہیں ہوتا۔ جبکہ سردی کے موسم میں زوال کے وقت شمال کیطرف کافی طویل سایہ ہوجاتا ہے۔اس وجہ سے گرمی کے ایام میں زول سے کافی عرصہ بعد بھی سایہ مختصر ہوتا ہے۔ 1۔جمعے کی نماز بھی ظہر کی طرح زوال کے فوراً بعد ادا کی جاتی ہے۔2۔جمعے کا خطبہ مختصر ہونے کی وجہ سے جلد فراغت ہوجاتی تھی۔جس کی وجہ سے دیواروں کا سایہ کافی نہیں ہوتا تھا۔بعض علماء نے اس سےیہ استنباط کیا ہے کہ جمعے کی نماز زوال سے پہلے ادا کی جاسکتی ہے لیکن یہ بات درست نہیں۔کیونکہ حجا میں گرمی کے موسم میں زوال کے وقت بالکل سایہ نہیں ہوتا۔ جبکہ سردی کے موسم میں زوال کے وقت شمال کیطرف کافی طویل سایہ ہوجاتا ہے۔اس وجہ سے گرمی کے ایام میں زول سے کافی عرصہ بعد بھی سایہ مختصر ہوتا ہے۔