كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ اتِّبَاعِ سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِﷺ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ قَالَ سَمِعْتُ مُجَالِدًا يَذْكُرُ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَطَّ خَطًّا وَخَطَّ خَطَّيْنِ عَنْ يَمِينِهِ وَخَطَّ خَطَّيْنِ عَنْ يَسَارِهِ ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ فِي الْخَطِّ الْأَوْسَطِ فَقَالَ هَذَا سَبِيلُ اللَّهِ ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ
کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت
باب: سنت رسول ﷺ کی پیروی کا بیان
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے آپ ﷺ نے ایک خط کھینچا (پھر) اس کی دائیں طرف دو خط کھینچے اور بائیں طرف بھی دو خط کھینچے۔ پھر درمیان والے خط پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:‘‘یہ اللہ کا راستہ ہے۔’’ پھر یہ آیت تلاوت فرمائے:﴿ وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا ۔۔۔۔﴾‘‘اور یہ میرا راستہ ہے سیدھا، لہٰذا اس کی پیروی کرو، اور( دوسری) راہوں پر نہ چلو، ورنہ وہ تمہیں اس( اللہ ) کی راہ سے دور کر دیں گی۔ ’’
تشریح :
(1) یہ روایت حضرت عبدالہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے تھورے سے الفاظ کے ردوبدل کے ساتھ مسند احمد میں ہے، اس کے محققین نے اسے حَسَن قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية: 7/208‘436) نیز شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے صحیح ابن ماجہ میں درج کیا ہے، اس اعتبار سے یہ روایت بعض اہل علم کے نزدیک ضعیف ہونے کے باوجود قابل حجت ہے۔ (2) سیدھا راستہ جو اللہ تک پہنچاتا ہے، ایک ہی ہے، جبکہ گمراہی کے راستے بہت سے ہیں۔ (3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گمراہی کو ظاہر کرنے کے لیے سیدھے خط کے دونوں طرف خط کھینچے۔ اس طرح اس میں غالبا یہ اشارہ تھا کہ گمراہی بعض اوقات غلو اور افراط کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور بعض اوقات تفریط اور کوتاہی کی صورت میں، غلو کی وجہ سے بدعات ایجاد ہوتی ہیں اور شرکیہ اعمال و عقائد اختیار کیے جاتے ہیں، جبکہ تفریط کی وجہ سے فرائض و سنن کی بجا آوری میں کوتاہی ہوتی ہے اور گناہوں کی جرات پیدا ہوتی ہے اور آخر کار کفر تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ (4) سیدھا راستہ افراط و تفریط کے درمیان ہے۔ خواہ اس کا تعلق عقائد سے ہو (جیسے معطلہ اور مشبہ کے درمیان اہل سنت کا راستہ) یا اعمال سے ہو) جیسے اسراف اور بخل کے درمیان جائز مقام پر خرچ کرنے کا طریقہ۔) (5) علمی مسائل کی وضاحت کے لیے اشکال وغیرہ سے مدد لینا درست ہے۔ آج کے دور میں کلاس میں بلیک بورڈ کا استعمال، یا جدید سمعی و بصری اشیاء کا استعمال شریعت کے منافی نہیں، الا یہ کہ کسی صورت یا کسی چیز کا استعمال شریعت کی واضح تعلیمات کے خلاف ہو۔ (6) ارشادات نبویہ قرآن مجید کی وضاحت پر مبنی ہیں اس لیے بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسئلے کی متعلقہ آیت بھی ذکر فرما دیتے تھے اور بعض اوقات ذکر نہیں فرماتے تھے۔ بہرحال کوئی صحیح حدیث قرآن مجید کے خلاف نہیں، اگر کوئی حدیث بظاہر کسی آیت کے خلاف محسوس ہوتی ہو تو ہوتی ہو تو محدثین آیت اور حدیث کی وضاحت اس انداز سے فرما دیتے ہیں کہ اِشکال دور ہو جاتا ہے۔ اس قسم کی مثالیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے بھی ملتی ہیں۔ (6) اللہ کا راستہ ایک ہی ہے۔ چار یا پانچ یا چھ نہیں۔ اور وہ ایک راستہ وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات اور عملی اسوہ سے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ فروعی مسائل میں ائمہ کرام کے اختلافات محض اجتہادی اختلاف ہیں، ان کی بنیا د پر امت کا الگ الگ گروہوں میں تقسیم ہو جانا درست نہیں۔ بدقسمتی سے بہت سے علماء نے ائمہ کرام کے اجتہادات کو اتنی زیادہ اہمیت دے دی کہ انہیں قرآن و حدیث کی نصوص سے بھی بالا تر سمجھ لیا گیا۔ اسی جمود اور تقلیدی طرز عمل کی وجہ سے امت مختلف فرقوں میں تقسیم ہو گئی۔ اب اس تقسیم کو تقسیم ربانی سمجھ کر کہا جاتا ہے کہ سب حق پر ہیں، حالانکہ حق ایک ہی ہو سکتا ہے نہ کہ بیک وقت سب کے سب۔ اس حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے کہ حق ایک ہی ہے نہ کہ متعدد۔ اللہ کا راستہ ایک ہی ہے نہ کہ چار پانچ۔
(1) یہ روایت حضرت عبدالہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے تھورے سے الفاظ کے ردوبدل کے ساتھ مسند احمد میں ہے، اس کے محققین نے اسے حَسَن قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية: 7/208‘436) نیز شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے صحیح ابن ماجہ میں درج کیا ہے، اس اعتبار سے یہ روایت بعض اہل علم کے نزدیک ضعیف ہونے کے باوجود قابل حجت ہے۔ (2) سیدھا راستہ جو اللہ تک پہنچاتا ہے، ایک ہی ہے، جبکہ گمراہی کے راستے بہت سے ہیں۔ (3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گمراہی کو ظاہر کرنے کے لیے سیدھے خط کے دونوں طرف خط کھینچے۔ اس طرح اس میں غالبا یہ اشارہ تھا کہ گمراہی بعض اوقات غلو اور افراط کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور بعض اوقات تفریط اور کوتاہی کی صورت میں، غلو کی وجہ سے بدعات ایجاد ہوتی ہیں اور شرکیہ اعمال و عقائد اختیار کیے جاتے ہیں، جبکہ تفریط کی وجہ سے فرائض و سنن کی بجا آوری میں کوتاہی ہوتی ہے اور گناہوں کی جرات پیدا ہوتی ہے اور آخر کار کفر تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ (4) سیدھا راستہ افراط و تفریط کے درمیان ہے۔ خواہ اس کا تعلق عقائد سے ہو (جیسے معطلہ اور مشبہ کے درمیان اہل سنت کا راستہ) یا اعمال سے ہو) جیسے اسراف اور بخل کے درمیان جائز مقام پر خرچ کرنے کا طریقہ۔) (5) علمی مسائل کی وضاحت کے لیے اشکال وغیرہ سے مدد لینا درست ہے۔ آج کے دور میں کلاس میں بلیک بورڈ کا استعمال، یا جدید سمعی و بصری اشیاء کا استعمال شریعت کے منافی نہیں، الا یہ کہ کسی صورت یا کسی چیز کا استعمال شریعت کی واضح تعلیمات کے خلاف ہو۔ (6) ارشادات نبویہ قرآن مجید کی وضاحت پر مبنی ہیں اس لیے بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسئلے کی متعلقہ آیت بھی ذکر فرما دیتے تھے اور بعض اوقات ذکر نہیں فرماتے تھے۔ بہرحال کوئی صحیح حدیث قرآن مجید کے خلاف نہیں، اگر کوئی حدیث بظاہر کسی آیت کے خلاف محسوس ہوتی ہو تو ہوتی ہو تو محدثین آیت اور حدیث کی وضاحت اس انداز سے فرما دیتے ہیں کہ اِشکال دور ہو جاتا ہے۔ اس قسم کی مثالیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے بھی ملتی ہیں۔ (6) اللہ کا راستہ ایک ہی ہے۔ چار یا پانچ یا چھ نہیں۔ اور وہ ایک راستہ وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات اور عملی اسوہ سے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ فروعی مسائل میں ائمہ کرام کے اختلافات محض اجتہادی اختلاف ہیں، ان کی بنیا د پر امت کا الگ الگ گروہوں میں تقسیم ہو جانا درست نہیں۔ بدقسمتی سے بہت سے علماء نے ائمہ کرام کے اجتہادات کو اتنی زیادہ اہمیت دے دی کہ انہیں قرآن و حدیث کی نصوص سے بھی بالا تر سمجھ لیا گیا۔ اسی جمود اور تقلیدی طرز عمل کی وجہ سے امت مختلف فرقوں میں تقسیم ہو گئی۔ اب اس تقسیم کو تقسیم ربانی سمجھ کر کہا جاتا ہے کہ سب حق پر ہیں، حالانکہ حق ایک ہی ہو سکتا ہے نہ کہ بیک وقت سب کے سب۔ اس حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے کہ حق ایک ہی ہے نہ کہ متعدد۔ اللہ کا راستہ ایک ہی ہے نہ کہ چار پانچ۔