Book - حدیث 1082

كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابٌ فِي فَرْضِ الْجُمُعَةِ حسن حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ أَبُو سَلَمَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ عَنْ أَبِيهِ أَبِي أُمَامَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كُنْتُ قَائِدَ أَبِي حِينَ ذَهَبَ بَصَرُهُ فَكُنْتُ إِذَا خَرَجْتُ بِهِ إِلَى الْجُمُعَةِ فَسَمِعَ الْأَذَانَ اسْتَغْفَرَ لِأَبِي أُمَامَةَ أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ وَدَعَا لَهُ فَمَكَثْتُ حِينًا أَسْمَعُ ذَلِكَ مِنْهُ ثُمَّ قُلْتُ فِي نَفْسِي وَاللَّهِ إِنَّ ذَا لَعَجْزٌ إِنِّي أَسْمَعُهُ كُلَّمَا سَمِعَ أَذَانَ الْجُمُعَةِ يَسْتَغْفِرُ لِأَبِي أُمَامَةَ وَيُصَلِّي عَلَيْهِ وَلَا أَسْأَلُهُ عَنْ ذَلِكَ لِمَ هُوَ فَخَرَجْتُ بِهِ كَمَا كُنْتُ أَخْرُجُ بِهِ إِلَى الْجُمُعَةِ فَلَمَّا سَمِعَ الْأَذَانَ اسْتَغْفَرَ كَمَا كَانَ يَفْعَلُ فَقُلْتُ لَهُ يَا أَبَتَاهُ أَرَأَيْتَكَ صَلَاتَكَ عَلَى أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ كُلَّمَا سَمِعْتَ النِّدَاءَ بِالْجُمُعَةِ لِمَ هُوَ قَالَ أَيْ بُنَيَّ كَانَ أَوَّلَ مَنْ صَلَّى بِنَا صَلَاةَ الْجُمُعَةِ قَبْلَ مَقْدَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ فِي نَقِيعِ الْخَضَمَاتِ فِي هَزْمٍ مِنْ حَرَّةِ بَنِي بَيَاضَةَ قُلْتُ كَمْ كُنْتُمْ يَوْمَئِذٍ قَالَ أَرْبَعِينَ رَجُلًا

ترجمہ Book - حدیث 1082

کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ باب: جمعے کی فرضیت کا بیان سیدنا عبدالرحمن بن کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے،انہوں نے فرمایا: جب میرے والد کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی تو میں ان کا رہبر ہوا کرتا تھا۔ میں جب بھی آپ کو جمعے کے لیے لے جاتا تو آپ( جمعے کی ) اذان سن کر سیدنا ابو امامہ اسعد بن زرارہ ؓ کے حق میں دعائے مغفرت اور دعائے خیر فرماتے۔ میں کچھ عرصہ ان کی زبان سے مسلسل یہی بات سنتا رہا۔ آخر میں نے دل میں ( اپنے آپ سے ) کہا: یہ تو کم عقلی کی بات ہے کہ میں ان سے اس کی وجہ دریافت نہ کروں حالانکہ میں ہر جمعے کو، جب بھی وہ جمعے کی اذان سنتے ہیں انہیں سیدنا ابو امامہ ؓ کے حق میں دعائے مغفرت اور دعائے خیر کرتے سنتا ہوں ۔( آخر کار ایک بار ) میں انہیں حسب معمول نماز جمعہ کی ادائیگ کے لئے لے کر چلا۔ جب انہیں اذان کی آواز سنائی دی تو انہوں نے اپنے معمول کے مطابق( سیدنا ابو امامہ اسعد بن زرارہ ؓ کے حق میں ) دعا کی۔ میں نے عرض کیا: ابا جان! آپ جب بھی جمعے کی اذان سنتے ہیں سیدنا اسعد بن زرارہ ؓ کو دعائیں دیتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے فرمایا: پیارے بیٹے! سب سے پہلے انہوں نے ہمیں جمعے کی نماز پڑھائی تھی، جب کہ رسول اللہ ﷺ ابھی مکہ سے( ہجرت کر کے مدینہ) تشریف نہیں لائے تھے۔ انہوں نے یہ نماز حرہ بنی بیاضہ میں نقیع الخضمات کے میدان میں پڑھائی تھی۔ میں نے کہا: اس دن آپ کتنے افراد( اس نماز میں شریک) تھے؟ انہوں نے فرمایا: چالیس آدمی تھے۔
تشریح : 1۔ نماز جمعہ مشہور قول کے مطابق ہجرت کے بعد فرض ہوئی۔اس صورت میں ہجرت سے پہلے مدینہ منورہ میں حضرت اسعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نماز جمعہ پڑھانا محض ایک تبلیغی پروگرام کی حیثیت رکھتا تھا۔ کے ہفتے میں ایک دن نماز ظہر کے بعدکچھ وعظ ونصیحت کردی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اس عمل کو پسند فرما کر ہجرت نبوی کے زمانہ میں اسے فرض کردیا۔2۔حرہ مدینہ منورہ سے باہر پتھریلا میدانی علاقہ ہے۔ غالباً شہر کے اندر کوئی مناسبت مقام ایسا نہیں ہوگا جہاں مسلمان مشرکوں کی مداخلت سے محفوظ رہ کر تبلیغی اجتماع منعقد کرسکیں۔3۔قوم کے ایسے افراد کی خوبیوں کااعتراف کرنا چاہیے۔جن کی وجہ سے مسلمانوں کو دینی یا اجتماعی فائدہ ہوا ہو۔ اور انھیں دعائے خیر سے یاد کرنا چاہیے۔4۔چالیس افراد کے شریک ہونے سے یہ سمجھنا درست نہیں کہ جمعے کے لئے چالیس افراد کی موجودگی ضروری ہے۔ بلکہ غیر مسلموں کے کسی شہر میں جب تین چار بھی مسلمان موجود ہوں۔ تو انھیں اپنی اجتماعیت قائم رکھنے کےلئے باجماعت نماز اور جمعے کا اہتمام کرنا چاہیے۔اگرچہ جمعے اور جماعت کے لئے مسجد موجود نہ ہو۔ 1۔ نماز جمعہ مشہور قول کے مطابق ہجرت کے بعد فرض ہوئی۔اس صورت میں ہجرت سے پہلے مدینہ منورہ میں حضرت اسعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نماز جمعہ پڑھانا محض ایک تبلیغی پروگرام کی حیثیت رکھتا تھا۔ کے ہفتے میں ایک دن نماز ظہر کے بعدکچھ وعظ ونصیحت کردی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اس عمل کو پسند فرما کر ہجرت نبوی کے زمانہ میں اسے فرض کردیا۔2۔حرہ مدینہ منورہ سے باہر پتھریلا میدانی علاقہ ہے۔ غالباً شہر کے اندر کوئی مناسبت مقام ایسا نہیں ہوگا جہاں مسلمان مشرکوں کی مداخلت سے محفوظ رہ کر تبلیغی اجتماع منعقد کرسکیں۔3۔قوم کے ایسے افراد کی خوبیوں کااعتراف کرنا چاہیے۔جن کی وجہ سے مسلمانوں کو دینی یا اجتماعی فائدہ ہوا ہو۔ اور انھیں دعائے خیر سے یاد کرنا چاہیے۔4۔چالیس افراد کے شریک ہونے سے یہ سمجھنا درست نہیں کہ جمعے کے لئے چالیس افراد کی موجودگی ضروری ہے۔ بلکہ غیر مسلموں کے کسی شہر میں جب تین چار بھی مسلمان موجود ہوں۔ تو انھیں اپنی اجتماعیت قائم رکھنے کےلئے باجماعت نماز اور جمعے کا اہتمام کرنا چاہیے۔اگرچہ جمعے اور جماعت کے لئے مسجد موجود نہ ہو۔