كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ فَضْلِ عُمَرَؓ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ غُضَيْفِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ يَقُولُ بِهِ»
کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت
باب: حضرت عمر کے فضائل و مناقب
حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا: میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے سنا، آپ فر رہے تھے: ‘‘ اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان پر حق رکھ دیا ہے، وہ اسی کے مطابق بات کرتے ہیں۔’’( ؓ)
تشریح :
(1) یہ صد یقین کی شان ہے کہ ان کی طبیعت حق سے اس قدر مانوس اور باطل سے اس قدر دور ہو جاتی ہے کہ ان کے لیے غلط بات کہنا یا غلط کام کرنا ممکن نہیں رہتا۔ ویسے بھی مومن جھوٹ سے پرہیز کرتا ہے۔ لیکن اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ معصوم عن الخطاء ہو جاتے ہیں۔ کسی بات میں غلط فہمی ہو جانا اور بات ہے اور جان بوجھ کر غلط کام کرنا بالکل مختلف چیز ہے۔ معصوم صرف پیغمبر ہوتے ہیں کیونکہ انہیں وحی کی رہنمائی حاصل ہوتی ہے، ان سے اگر کوئی خلاف اولیٰ کام ہو جائے تو فورا متنبہ کر دیا جاتا ہے جبکہ امتی کو یہ چیز حاصل نہیں ہوتی۔ (2) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی میں متعدد ایسے واقعات پیش آئے ہیں جب انہوں نے اپنی رائے اور فہم کے مطابق کوئی بات کی، تو اللہ تعالیٰ کا حکم ھی اسی کے مطابق نازل ہوا۔ پردے کا حکم، جنگ بدر کے قیدیوں کا مسئلہ، مقام باراہیم کے نزدیک نماز، رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی کے جنازے کا مسئلہ وغیرہ مشہور مثالیں ہیں۔ دیکھیے: (سنن الکبریٰ للبیہقی:7/88) گویا یہ اصابت رائے اللہ کا خصوصی انعام اور فضل تھا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا۔
(1) یہ صد یقین کی شان ہے کہ ان کی طبیعت حق سے اس قدر مانوس اور باطل سے اس قدر دور ہو جاتی ہے کہ ان کے لیے غلط بات کہنا یا غلط کام کرنا ممکن نہیں رہتا۔ ویسے بھی مومن جھوٹ سے پرہیز کرتا ہے۔ لیکن اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ معصوم عن الخطاء ہو جاتے ہیں۔ کسی بات میں غلط فہمی ہو جانا اور بات ہے اور جان بوجھ کر غلط کام کرنا بالکل مختلف چیز ہے۔ معصوم صرف پیغمبر ہوتے ہیں کیونکہ انہیں وحی کی رہنمائی حاصل ہوتی ہے، ان سے اگر کوئی خلاف اولیٰ کام ہو جائے تو فورا متنبہ کر دیا جاتا ہے جبکہ امتی کو یہ چیز حاصل نہیں ہوتی۔ (2) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی میں متعدد ایسے واقعات پیش آئے ہیں جب انہوں نے اپنی رائے اور فہم کے مطابق کوئی بات کی، تو اللہ تعالیٰ کا حکم ھی اسی کے مطابق نازل ہوا۔ پردے کا حکم، جنگ بدر کے قیدیوں کا مسئلہ، مقام باراہیم کے نزدیک نماز، رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی کے جنازے کا مسئلہ وغیرہ مشہور مثالیں ہیں۔ دیکھیے: (سنن الکبریٰ للبیہقی:7/88) گویا یہ اصابت رائے اللہ کا خصوصی انعام اور فضل تھا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا۔