Book - حدیث 105

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ فَضْلِ عُمَرَؓ صحیح دون قوله " خاصة " حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ أَبُو عُبَيْدٍ الْمَدِينِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ الْمَاجِشُونِ قَالَ: حَدَّثَنِي الزَّنْجِيُّ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ خَاصَّةً»

ترجمہ Book - حدیث 105

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: حضرت عمر کے فضائل و مناقب حضرت عائشہ ؓا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛‘‘ اے اللہ! اسلام کو خاص طور پر عمر بن خطاب کے ذریعے سے قوت بخش۔’’
تشریح : (1) یہ روایت سندا ضعیف ہے، تاہم شواہد کی بنا پر صحیح ہے، لیکن اس روایت میں مذکور لفظ (خاصۃ) صحیح نہیں ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے اسی حدیث کی تحقیق ق تخریج۔ (2) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ 6 نبوت یعنی ہجرت سے سات سال پہلے کا ہے دیکھیے: (الرحیق المختوم، از مولانا صفی الرحمن مبارکپوری، ص:145) جب کہ اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر تقریبا ایک برس کی ہو گی، اس لیے اگر یہ دعا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے متعلق ہے، تو ظاہر ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی، کسی اور صحابی سے یہ حدیث سنی ہو گی۔ لیکن اس بنا پر اس حدیث کو ضعیف نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس صورت میں یہ مراسیل صحابہ میں شمار ہو گی جو محدثین کے نزدیک صحیح ہے۔ لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ دعا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے لیے نہ ہو۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا اس زمانے میں فرمائی ہو جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آ چکی تھیں اور اس طرح انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست سنی ہو۔ اس صورت میں اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آئندہ زندگی کے کارہائے نمایاں مراد ہوں گے، جن میں روم و ایران جیسی طاقت ور کافر حکومتوں کی شکست، اور اسلامی سلطنت کی حیرت انگیز حد تک توسیع بھی شامل ہے۔ (3) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کرنا، ان کی فضیلت کی واضح دلیل ہے۔ (1) یہ روایت سندا ضعیف ہے، تاہم شواہد کی بنا پر صحیح ہے، لیکن اس روایت میں مذکور لفظ (خاصۃ) صحیح نہیں ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے اسی حدیث کی تحقیق ق تخریج۔ (2) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ 6 نبوت یعنی ہجرت سے سات سال پہلے کا ہے دیکھیے: (الرحیق المختوم، از مولانا صفی الرحمن مبارکپوری، ص:145) جب کہ اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر تقریبا ایک برس کی ہو گی، اس لیے اگر یہ دعا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے متعلق ہے، تو ظاہر ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی، کسی اور صحابی سے یہ حدیث سنی ہو گی۔ لیکن اس بنا پر اس حدیث کو ضعیف نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس صورت میں یہ مراسیل صحابہ میں شمار ہو گی جو محدثین کے نزدیک صحیح ہے۔ لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ دعا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے لیے نہ ہو۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا اس زمانے میں فرمائی ہو جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آ چکی تھیں اور اس طرح انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست سنی ہو۔ اس صورت میں اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آئندہ زندگی کے کارہائے نمایاں مراد ہوں گے، جن میں روم و ایران جیسی طاقت ور کافر حکومتوں کی شکست، اور اسلامی سلطنت کی حیرت انگیز حد تک توسیع بھی شامل ہے۔ (3) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کرنا، ان کی فضیلت کی واضح دلیل ہے۔