Book - حدیث 1020

كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابُ مَنْ يُصَلِّي لِغَيْرِ الْقِبْلَةِ وَهُوَ لَا يَعْلَمُ حسن حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ سَعِيدٍ أَبُو الرَّبِيعِ السَّمَّانُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَتَغَيَّمَتْ السَّمَاءُ وَأَشْكَلَتْ عَلَيْنَا الْقِبْلَةُ فَصَلَّيْنَا وَأَعْلَمْنَا فَلَمَّا طَلَعَتْ الشَّمْسُ إِذَا نَحْنُ قَدْ صَلَّيْنَا لِغَيْرِ الْقِبْلَةِ فَذَكَرْنَا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْزَلَ اللَّه فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ)البقرۃ:الآیۃ:115)

ترجمہ Book - حدیث 1020

کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ باب: لا علمی کی وجہ سے قبلہ کے سوا دوسرے رخ پر نماز ادا کرنا سیدنا ربیعہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے کہ آسمان پر بادل چھا گئے اور قبلے کی سمت معلوم نہ ہو سکی۔ ہم نے (اندازے سے ) نماز پڑھی اور( زمین پر) نشان لگا لیے۔ جب سورج طلوع ہوا تو معلوم ہوا کہ ہم نے قبلے کے سوا( کسی اور طرف) نماز پڑھی ہے۔ ہم نے نبی ﷺ سے یہ واقعہ بیان کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فر دی:(فاین تولوا فثم وجہ اللہ) ’’تم جدھر بھی رخ کرو، ادھر ہی اللہ کا چہر ہے۔ ‘‘
تشریح : 1۔اگر بادل وغیرہ کی وجہ سے قبلے کا رخ معلوم نہ ہوسکے تو اندازے سے رخ متعین کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اس اندازے میں اگر غلطی ہوجائے تو معاف ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے۔ ( لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا)(البقرۃ۔286) اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے بڑھ کر کام کرنے کا مکلف نہیں فرماتا 2۔اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ غلطی سے قبلے کے سوا د وسری طرف پڑھی ہوئی نماز دہرانے کی ضرورت نہیں ۔امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔اکثر علماء نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔وہ فرماتے ہیں۔ اگر کوئی شخص بادل کی وجہ سے قبلے کے سوا دوسری طرف منہ کرکے نماز پڑھ لے پھر نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ اس نے قبلہ رخ نماز ادا نہیں کی تو اس کی وہ نماز درست ہے۔سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ ۔ابن مبارکرحمۃ اللہ علیہ ۔احمد بن حنبلرحمۃ اللہ علیہ ۔اور اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے۔ (جامع ترمذی الصلاۃ باب ماجاء فی الرجل یصلی لغیر القبلۃ فی الغیم حدیث 345)3۔اگر نماز کے دوران میں پتہ چل جائے تو نمازی کوچاہیے کہ نماز کے دوران میں ہی قبلہ رخ ہوجائے۔اور باقی نماز صحیح رخ پر مکمل کرلے۔جیسے کہ اہل قباء نے تحویل قبلہ کی خبر سن کرنماز کے دوران میں ہی رخ تبدیل کرلیا تھا۔4۔یہ روایت بعض حضرات کے نزدیک حسن ہے دیکھئے۔(الارواء رقم 291) 1۔اگر بادل وغیرہ کی وجہ سے قبلے کا رخ معلوم نہ ہوسکے تو اندازے سے رخ متعین کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اس اندازے میں اگر غلطی ہوجائے تو معاف ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے۔ ( لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا)(البقرۃ۔286) اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے بڑھ کر کام کرنے کا مکلف نہیں فرماتا 2۔اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ غلطی سے قبلے کے سوا د وسری طرف پڑھی ہوئی نماز دہرانے کی ضرورت نہیں ۔امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔اکثر علماء نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔وہ فرماتے ہیں۔ اگر کوئی شخص بادل کی وجہ سے قبلے کے سوا دوسری طرف منہ کرکے نماز پڑھ لے پھر نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ اس نے قبلہ رخ نماز ادا نہیں کی تو اس کی وہ نماز درست ہے۔سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ ۔ابن مبارکرحمۃ اللہ علیہ ۔احمد بن حنبلرحمۃ اللہ علیہ ۔اور اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے۔ (جامع ترمذی الصلاۃ باب ماجاء فی الرجل یصلی لغیر القبلۃ فی الغیم حدیث 345)3۔اگر نماز کے دوران میں پتہ چل جائے تو نمازی کوچاہیے کہ نماز کے دوران میں ہی قبلہ رخ ہوجائے۔اور باقی نماز صحیح رخ پر مکمل کرلے۔جیسے کہ اہل قباء نے تحویل قبلہ کی خبر سن کرنماز کے دوران میں ہی رخ تبدیل کرلیا تھا۔4۔یہ روایت بعض حضرات کے نزدیک حسن ہے دیکھئے۔(الارواء رقم 291)