كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابُ الْقِبْلَةِ منکر حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ عَمْرٍو الدَّارِمِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ شَهْرًا وَصُرِفَتْ الْقِبْلَةُ إِلَى الْكَعْبَةِ بَعْدَ دُخُولِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ بِشَهْرَيْنِ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ أَكْثَرَ تَقَلُّبَ وَجْهِهِ فِي السَّمَاءِ وَعَلِمَ اللَّهُ مِنْ قَلْبِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ يَهْوَى الْكَعْبَةَ فَصَعِدَ جِبْرِيلُ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُتْبِعُهُ بَصَرَهُ وَهُوَ يَصْعَدُ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ يَنْظُرُ مَا يَأْتِيهِ بِهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ الْآيَةَ فَأَتَانَا آتٍ فَقَالَ إِنَّ الْقِبْلَةَ قَدْ صُرِفَتْ إِلَى الْكَعْبَةِ وَقَدْ صَلَّيْنَا رَكْعَتَيْنِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسٍ وَنَحْنُ رُكُوعٌ فَتَحَوَّلْنَا فَبَنَيْنَا عَلَى مَا مَضَى مِنْ صَلَاتِنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا جِبْرِيلُ كَيْفَ حَالُنَا فِي صَلَاتِنَا إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ(البقرۃ:143
کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ
باب: قبلے کا بیان
سیدنا براء ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اٹھارہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں ادا کیں ، پھر آپ ﷺ کے مدینہ تشریف لانے کے دو ماہ بعد کعبہ کو قبلہ مقرر کر دیا گیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ جب بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے تو اکثر آسمان کی طرف چہرہ مبارک اٹھاتے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے نبی کے دل کی کیفیت معلوم تھی کہ وہ کعبہ شریف( کو قبلہ بنانے) کی خواہش رکھتے ہیں۔ جبریل علیہ السلام (آسمان کی طرف) بلند ہوئے تو جب وہ آسمان اور زمین کے درمیان بلند ہوتے جا رہے تھے تو رسول اللہ ﷺ یہ معلوم کرنے کی خواہش رکھتے تھے کہ جبریل علیہ السلام کیا وحی لے کر نازل ہوں گے۔ (آخر کار) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فر دی:( قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَآءِ ) ’’ ہم آپ کے چہرے کو بار ابر آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھتے ہیں۔۔۔۔ ‘‘ہمارے پاس ایک آدمی آیا، اس نے کہا: قبلہ( بیت المقدس سے) کعبہ کی طرف منتقل ہوگیا ہے۔ ہم نے دو رکعتیں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے ادا کی تھیں( اور ابھی نماز مکمل نہیں ہوئی تھی) ہم رکوع میں تھے( جب یہ خبر ملی) ہم نے (فوراً) رخ پھیر لیا اور جو نماز پڑھی جا چکی تھی، اس پر باقی نماز کی بنا کر لی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے جبریل! ہماری بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھی ہوئی نمازوں کا کیا حال ہوگا؟‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فر دی:(و کان اللہ لیضیع ایمانکم) ’’اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان( تہماری نمازیں) ضائع نہیں کریگا۔‘‘
تشریح :
1۔یہ روایت سخت ضعیف (بلکہ منکر) ہے۔ خود اس حدیث کےالفاظ میں بھی تعارض ہے پہلے جملے میں اٹھارہ مہینے اور دوسرے جملے میں دو مہینے کی مدت بیان کی گئی ہے۔2۔یہ واقعہ صحیح بخاری میں بھی مروی ہے۔لیکن اس میں اٹھارہ مہینے کی بجائے سولہ یا سترہ مہینے کےالفاظ ہیں۔دیکھئے۔(صحیح البخاری الایمان باب الصلاۃ من الایمان حدیث 40)اور بخاری کی روایت زیادہ صحیح ہے۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں اپنے گھر سے 27 صفر کو اور غار ثور سے یکم ربیع الاول کو روانہ ہوئے تھے۔اور 8 ربیع الاول کو قباء میں تشریف فرما ہوئے جبکہ تحویل قبلہ کا حکم دوسرے سال رجب کے وسط میں نازل ہوا۔اس طرح یہ درمیانی مدت سولہ ماہ اور کچھ دن بنتی ہے۔واللہ اعلم۔3۔قبلے کی تبدیلی کے بعد نبی اکرمﷺ نے کعبہ کی طرف منہ کرکے جو نماز سب سے پہلے ادا کی وہ نماز عصر تھی۔(حوالہ مذکورہ بالا) 4۔انصار کا نماز کے دوران میں حکم معلوم ہونے پر فورا کعبہ کی طرف رخ کرلینے کا زکر بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے۔(حوالہ مذکورہ بالا) 5۔ایک قابل اعتماد آدمی کی بیان کردہ خبر یا حدیث پراعتماد کر کے عمل کرلینا چاہیے۔6۔اگر کوئی شخص اپنے یقین کے مطابق قبلے کی طرف منہ کرکے نماز پڑھ رہا ہو۔ پھر اسے نماز کےدوران میں معلوم ہوجائے کہ قبلہ کا رخ دوسری طرف ہے۔تو نماز کے دوران ہی ادھر رخ کرلینا چاہے۔اس کی پہلی نماز درست ہے۔دہرانے کی ضرورت نہیں۔
1۔یہ روایت سخت ضعیف (بلکہ منکر) ہے۔ خود اس حدیث کےالفاظ میں بھی تعارض ہے پہلے جملے میں اٹھارہ مہینے اور دوسرے جملے میں دو مہینے کی مدت بیان کی گئی ہے۔2۔یہ واقعہ صحیح بخاری میں بھی مروی ہے۔لیکن اس میں اٹھارہ مہینے کی بجائے سولہ یا سترہ مہینے کےالفاظ ہیں۔دیکھئے۔(صحیح البخاری الایمان باب الصلاۃ من الایمان حدیث 40)اور بخاری کی روایت زیادہ صحیح ہے۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں اپنے گھر سے 27 صفر کو اور غار ثور سے یکم ربیع الاول کو روانہ ہوئے تھے۔اور 8 ربیع الاول کو قباء میں تشریف فرما ہوئے جبکہ تحویل قبلہ کا حکم دوسرے سال رجب کے وسط میں نازل ہوا۔اس طرح یہ درمیانی مدت سولہ ماہ اور کچھ دن بنتی ہے۔واللہ اعلم۔3۔قبلے کی تبدیلی کے بعد نبی اکرمﷺ نے کعبہ کی طرف منہ کرکے جو نماز سب سے پہلے ادا کی وہ نماز عصر تھی۔(حوالہ مذکورہ بالا) 4۔انصار کا نماز کے دوران میں حکم معلوم ہونے پر فورا کعبہ کی طرف رخ کرلینے کا زکر بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے۔(حوالہ مذکورہ بالا) 5۔ایک قابل اعتماد آدمی کی بیان کردہ خبر یا حدیث پراعتماد کر کے عمل کرلینا چاہیے۔6۔اگر کوئی شخص اپنے یقین کے مطابق قبلے کی طرف منہ کرکے نماز پڑھ رہا ہو۔ پھر اسے نماز کےدوران میں معلوم ہوجائے کہ قبلہ کا رخ دوسری طرف ہے۔تو نماز کے دوران ہی ادھر رخ کرلینا چاہے۔اس کی پہلی نماز درست ہے۔دہرانے کی ضرورت نہیں۔