Book - حدیث 1005

كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابُ فَضْلِ مَيْمَنَةِ الصَّفِّ ضعیف حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى مَيَامِنِ الصُّفُوفِ

ترجمہ Book - حدیث 1005

کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ باب: صف کی دائیں جانب کی فضیلت سیدہ عائشہ ؓا سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ صفوں کی دائیں جناب پر رحمتیں نازل کرتا ہے اور فرشتے اس کے لئے دعائے خیر کرتے ہیں۔‘‘
تشریح : رسول اللہ ﷺ ہر اس کام میں دایئں طرف کو ترجیح دیتے تھے۔ جو طبعاً شرعاً مستحسن ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ارشاد ہے۔ رسول اللہ ﷺ اپنے تمام کاموں میں (جیسے) وضو کرنے کنگھی کرنے اور جوتے پہننے میں دایئں طرف سے شروع کرنے کو پسند فرماتے تھے۔ (صحیح البخاری الوضوء باب التیمن فی الوضوء والغسل حدیث 168۔وصحیح مسلم الطھارۃ باب التیمن فی الطھور وغیرہ حدیث 268) اس حدیث کی روشنی میں نماز میں کھڑے ہوتے وقت بھی ممکن حد تک دایئں طرف کھڑے ہونے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔لیکن یہ روایت صحیح ابن خزیمہ مسند احمد۔اورسنن بہیقی وغیرہ میں بہ ایں الفاظ مروی ہے۔ ان الله وملائكته يصلون علي الذين يصلون الصفوف اللہ تعالیٰ صفوں کے ملانے والوں پر رحمت نازل کرتا ہے اور فرشتے ان کےلئے دعایئں کرتے ہیں۔ اورامام بہیقی شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ اور مسند احمد کے محققین کے نزدیک یہ روایت انہی الفاظ کے ساتھ محفوظ اور صحیح ہے گویا ان کے نذدیک اس حدیث میں (میامن الصفوف) کی بجائے یصلون الصفوف) ہی کے الفاظ ہیں ۔ملاحظہ ہو۔(تمام المنۃ ص 288۔وضعیف سنن ابی دائود رقم 676 ولاموسوعۃ الحدیثیۃ (مسند احمد) ج 444/40 رقم الحدیث 24381)اس اعتبار سے اس حدیث سے صفوں کے ملانے کی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے۔ نہ کہ امام کے دایئں جناب کھڑے ہونے کی فضیلت کاجس کا مطلب یہ ہے کہ امام کے دایئں یا بایئں جانب کھڑا ہونا یکساں ہے۔اصل فضیلت صف بندی کاصحیح طریقے سے اہتمام کرنے میں ہے۔تاہم ہر معاملے میں دایئں جانب کی جو عمومی فضیلت ہے اس کے تحت امام کی داہنی جانب باعث فضیلت ہو سکتی ہے۔واللہ اعلم۔ رسول اللہ ﷺ ہر اس کام میں دایئں طرف کو ترجیح دیتے تھے۔ جو طبعاً شرعاً مستحسن ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ارشاد ہے۔ رسول اللہ ﷺ اپنے تمام کاموں میں (جیسے) وضو کرنے کنگھی کرنے اور جوتے پہننے میں دایئں طرف سے شروع کرنے کو پسند فرماتے تھے۔ (صحیح البخاری الوضوء باب التیمن فی الوضوء والغسل حدیث 168۔وصحیح مسلم الطھارۃ باب التیمن فی الطھور وغیرہ حدیث 268) اس حدیث کی روشنی میں نماز میں کھڑے ہوتے وقت بھی ممکن حد تک دایئں طرف کھڑے ہونے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔لیکن یہ روایت صحیح ابن خزیمہ مسند احمد۔اورسنن بہیقی وغیرہ میں بہ ایں الفاظ مروی ہے۔ ان الله وملائكته يصلون علي الذين يصلون الصفوف اللہ تعالیٰ صفوں کے ملانے والوں پر رحمت نازل کرتا ہے اور فرشتے ان کےلئے دعایئں کرتے ہیں۔ اورامام بہیقی شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ اور مسند احمد کے محققین کے نزدیک یہ روایت انہی الفاظ کے ساتھ محفوظ اور صحیح ہے گویا ان کے نذدیک اس حدیث میں (میامن الصفوف) کی بجائے یصلون الصفوف) ہی کے الفاظ ہیں ۔ملاحظہ ہو۔(تمام المنۃ ص 288۔وضعیف سنن ابی دائود رقم 676 ولاموسوعۃ الحدیثیۃ (مسند احمد) ج 444/40 رقم الحدیث 24381)اس اعتبار سے اس حدیث سے صفوں کے ملانے کی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے۔ نہ کہ امام کے دایئں جناب کھڑے ہونے کی فضیلت کاجس کا مطلب یہ ہے کہ امام کے دایئں یا بایئں جانب کھڑا ہونا یکساں ہے۔اصل فضیلت صف بندی کاصحیح طریقے سے اہتمام کرنے میں ہے۔تاہم ہر معاملے میں دایئں جانب کی جو عمومی فضیلت ہے اس کے تحت امام کی داہنی جانب باعث فضیلت ہو سکتی ہے۔واللہ اعلم۔