بلوغ المرام - حدیث 988

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ الْحَضَانَةِ صحيح وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ زَوْجِي يُرِيدُ أَنْ يَذْهَبَ بِابْنِي، وَقَدْ نَفَعَنِي، وَسَقَانِي مِنْ بِئْرِ أَبِي عِنَبَةَ فَجَاءَ زَوْجُهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم: ((يَا غُلَامُ! هَذَا أَبُوكَ، وَهَذِهِ ُمُّكَ، فَخُذْ بِيَدِ أَيُّهُمَا شِئْتَ)). فَأَخَذَ بِيَدِ أُمِّهِ، فَانْطَلَقَتْ بِهِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَالْأَرْبَعَةُ، وَصَحَّحَهُ التِّرْمِذِيُّ

ترجمہ - حدیث 988

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل باب: اولاد کی پرورش کا بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!میرا شوہر مجھ سے میرا بچہ چھیننا چاہتا ہے‘ حالانکہ وہ (بچہ) مجھے فائدہ دیتا ہے اور ابو عنبہ کے کنویں سے مجھے پانی لا کر دیتا ہے۔ اسی اثنا میں اس کا شوہر بھی آگیا۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے بچے! یہ تیرا باپ ہے اور یہ تیری والدہ۔ ان دونوں میں سے جس کا چاہے ہاتھ پکڑ لے۔‘‘ اس بچے نے ماں کا ہاتھ پکڑ لیا اور وہ اسے لے کر چل دی۔ (اسے احمد اور چاروں نے بیان کیا ہے اور ترمذی نے اسے صحیح کہا ہے۔)
تشریح : اس حدیث میں بچے کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جس کے پاس رہنا پسند کرے اس کے پاس رہے اور اس سے پہلی حدیث میں والدہ کو زیادہ حق دیا گیا ہے۔ تو اس کے بارے میں امام ابن قیم رحمہ اللہ کا قول ہے کہ جس امر میں بچے کی مصلحت اور خیر خواہی ہو اسے اختیار کرنا چاہیے۔ اگر ماں‘ باپ کے مقابلے میں زیادہ صحیح تربیت و پرورش اور حفاظت کرنے والی ہو اور نہایت غیرت مند خاتون ہو تو ماں کو باپ پر مقدم کیا جائے گا۔ اس موقع پر قرعہ اندازی یا اختیار میں سے کسی کا لحاظ نہیں کیا جائے گا کیونکہ بچہ تو نادان‘ کم عقل‘ ناعاقبت اندیش ہوتا ہے۔ ماں باپ میں سے جو بچے کا زیادہ خیال رکھنے والا ہو‘ بچہ اس کے سپرد کر دیا جائے گا۔ اگر باپ میں یہ اوصاف ماں کی نسبت زیادہ ہوں تو بچہ باپ کی تحویل میں دے دیا جائے گا۔ وہی اس کی پرورش و تربیت کا ذمہ دار ہوگا۔ امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ لڑکا ہو یا لڑکی دونوں ماں کے پاس رہیں گے۔ اور احناف نے کہا کہ لڑکی ماں کے پاس اور لڑکا باپ کے پاس رہے گا۔ قرین انصاف بات امام ابن قیم رحمہ اللہ کی معلوم ہوتی ہے۔
تخریج : أخرجه أبوداود، الطلاق، باب من أحق بالولد، حديث:2277، والترمذي، الأحكام، حديث:1357، والنسائي، الطلاق، حديث:3526، وابن ماجه، الأحكام، حديث:2351، وأحمد:2 /246. اس حدیث میں بچے کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جس کے پاس رہنا پسند کرے اس کے پاس رہے اور اس سے پہلی حدیث میں والدہ کو زیادہ حق دیا گیا ہے۔ تو اس کے بارے میں امام ابن قیم رحمہ اللہ کا قول ہے کہ جس امر میں بچے کی مصلحت اور خیر خواہی ہو اسے اختیار کرنا چاہیے۔ اگر ماں‘ باپ کے مقابلے میں زیادہ صحیح تربیت و پرورش اور حفاظت کرنے والی ہو اور نہایت غیرت مند خاتون ہو تو ماں کو باپ پر مقدم کیا جائے گا۔ اس موقع پر قرعہ اندازی یا اختیار میں سے کسی کا لحاظ نہیں کیا جائے گا کیونکہ بچہ تو نادان‘ کم عقل‘ ناعاقبت اندیش ہوتا ہے۔ ماں باپ میں سے جو بچے کا زیادہ خیال رکھنے والا ہو‘ بچہ اس کے سپرد کر دیا جائے گا۔ اگر باپ میں یہ اوصاف ماں کی نسبت زیادہ ہوں تو بچہ باپ کی تحویل میں دے دیا جائے گا۔ وہی اس کی پرورش و تربیت کا ذمہ دار ہوگا۔ امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ لڑکا ہو یا لڑکی دونوں ماں کے پاس رہیں گے۔ اور احناف نے کہا کہ لڑکی ماں کے پاس اور لڑکا باپ کے پاس رہے گا۔ قرین انصاف بات امام ابن قیم رحمہ اللہ کی معلوم ہوتی ہے۔