كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ النَّفَقَاتِ حسن وَعَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَنْ أَبَرُّ؟ قَالَ: ((أُمَّكَ)). قُلْتُ: ثُمَّ مِنْ؟ قَالَ: ((أُمَّكَ)). قُلْتُ: ثُمَّ مِنْ (( قَالَ: ((أُمَّكَ)). قُلْتُ: ثُمَّ مِنْ؟ قَالَ: ((أَبَاكَ، ثُمَّ الْأَقْرَبَ فَالْأَقْرَبَ)). أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ، وَالتِّرْمِذِيُّ وَحُسَّنَهُ.
کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل
باب: نفقات کا بیان
بہز بن حکیم اپنے والد (حکیم) سے اور وہ ان (بہز) کے دادا (معاویہ قشیری رضی اللہ عنہ ) سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں حسن سلوک اور بھلائی کس سے کروں؟ آپ نے فرمایا: ’’اپنی والدہ سے۔‘‘ میں نے پھر عرض کیا: پھر کس سے؟ آپ نے فرمایا: ’’اپنی والدہ سے۔‘‘ میں نے پھر عرض کیا: پھر کس سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ’’اپنی والدہ سے۔‘‘ میں نے پھر عرض کیا: پھر کس سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے والد سے۔پھر درجہ بدرجہ قرابت داروں سے۔‘‘ (اسے ابوداود اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔اور ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔)
تشریح :
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ماں کا درجہ والد سے زیادہ ہے۔ 2.ماں بچے کی وجہ سے جو تکلیفیں اور دکھ برداشت کرتی ہے اس کی وجہ سے ماں کے ساتھ حسن سلوک کی زیادہ تاکید فرمائی گئی ہے۔ عورت کمزور اور صنف نازک ہے۔ بچے بڑے ہو کر ماں کے قابو اور کنٹرول میں بہت کم رہتے ہیں۔ ماں کی بے قدری کی جاتی ہے۔ شریعت نے ماں کے ساتھ حسن سلوک کی اتنی شدت سے تاکید کی ہے اور اولاد کو احساس دلایا ہے کہ ماں کو ہر ممکن طریقے سے زیادہ سے زیادہ آرام اور راحت پہنچانی چاہیے۔ اس کے حکم کو بے چون و چرا ماننا اور تسلیم کرنا چاہیے بشرطیکہ وہ خلاف شرع حکم نہ دے۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الأدب، باب في بر الوالدين، حديث:5139، والترمذي، البر والصلة، حديث:1897.
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ماں کا درجہ والد سے زیادہ ہے۔ 2.ماں بچے کی وجہ سے جو تکلیفیں اور دکھ برداشت کرتی ہے اس کی وجہ سے ماں کے ساتھ حسن سلوک کی زیادہ تاکید فرمائی گئی ہے۔ عورت کمزور اور صنف نازک ہے۔ بچے بڑے ہو کر ماں کے قابو اور کنٹرول میں بہت کم رہتے ہیں۔ ماں کی بے قدری کی جاتی ہے۔ شریعت نے ماں کے ساتھ حسن سلوک کی اتنی شدت سے تاکید کی ہے اور اولاد کو احساس دلایا ہے کہ ماں کو ہر ممکن طریقے سے زیادہ سے زیادہ آرام اور راحت پہنچانی چاہیے۔ اس کے حکم کو بے چون و چرا ماننا اور تسلیم کرنا چاہیے بشرطیکہ وہ خلاف شرع حکم نہ دے۔