كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ اللِّعَانِ صحيح وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه: أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ غُلَامًا أَسْوَدَ؟ قَالَ: ((هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ؟)) قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: ((فَمَا أَلْوَانُهَا؟)) قَالَ: حُمْرٌ. قَالَ: ((هَلْ فِيهَا مَنْ أَوْرَقَ؟))، قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: ((فَأَنَّى ذَلِكَ؟))، قَالَ: لَعَلَّهُ نَزَعَهُ عِرْقٌ. قَالَ: ((فَلَعَلَّ ابْنَكَ هَذَا نَزَعَهُ عِرْقٌ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ: وَهُوَ يُعَرِّضُ بِأَنْ يَنْفِيَهُ -، وَقَالَ فِي آخِرِهِ: وَلَمْ يُرَخِّصْ لَهُ فِي الِانْتِفَاءِ مِنْهُ.
کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل
باب: لعان کا بیان
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! میری بیوی نے کالے رنگ کا بچہ جنا ہے۔ آپ نے اس سے پوچھا: ’’کیا تمھارے پاس کچھ اونٹ ہیں؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے دریافت فرمایا: ’’ان کے رنگ کیا ہیں؟‘‘ اس نے کہا: سرخ۔ آپ نے دریافت فرمایا: ’’ان میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے دریافت فرمایا: ’’وہ (رنگ) کہاں سے آگیا؟‘‘ اس نے کہا: کوئی رگ اسے کھینچ لائی ہوگی۔ چنانچہ آپ نے فرمایا: ’’پھر تیرے اس بیٹے کو بھی کوئی رگ کھینچ لائی ہوگی۔‘‘ (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں ہے: وہ اس بچے کی نفی کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ اور اس روایت کے آخر میں ہے کہ آپ نے اسے بچے کی نفی کی رخصت و اجازت نہ دی۔
تشریح :
1. کالے رنگ نے صحابی کو مغالطے اور اشتباہ میں مبتلا کر دیا کہ ہم میاں بیوی میں سے تو کوئی بھی سیاہ رنگ کا نہیں‘ پھر یہ بچہ اس رنگ کا کہاں سے پیدا ہوگیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب اس نے عندیہ اور مافی الضمیر ظاہر کیا تو آپ نے اسے ڈانٹ پلائی نہ اس کی بیوی کی صریح الفاظ میں صفائی پیش فرمائی‘ بلکہ عربوں کی ذہنی سطح پر اتر کر آپ نے سمجھایا اور اس کے مغالطے کی تصحیح کردی کہ سفید رنگ کے زوجین (میاں بیوی) کے ہاں سیاہ رنگ بچے کی پیدائش بچے کی ماں کی بدکاری و بدچلنی پر دلالت نہیں کرتی۔ یہ خاندانی اثرات ہوتے ہیں جو کبھی بہت دور نسل میں نمایاں ہو جاتے ہیں۔ اس سے بچے کے نسب پر درحقیقت کوئی عیب اور نقص واقع نہیں ہوتا۔ 2. اس سے معلوم ہوا کہ سائل کو جواب حکمت سے اور اس کی ذہنی سطح کو ملحوظ رکھ کر دینا چاہیے۔ فلسفیانہ جواب کی بجائے عام روزمرہ کی مثالوں سے جواب دینا تفہیم مدعا کے لیے زیادہ مفید اور کارگر ہے۔ 3.اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس چیز کی حقیقت کا علم نہ ہو اسے صاحب علم سے دریافت کر لینا انسان کوبہت بڑے فتنے سے محفوظ رکھتا ہے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الطلاق، باب إذا عرّض بنفي الولد، حديث:5305، ومسلم، اللعان، حديث:1500.
1. کالے رنگ نے صحابی کو مغالطے اور اشتباہ میں مبتلا کر دیا کہ ہم میاں بیوی میں سے تو کوئی بھی سیاہ رنگ کا نہیں‘ پھر یہ بچہ اس رنگ کا کہاں سے پیدا ہوگیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب اس نے عندیہ اور مافی الضمیر ظاہر کیا تو آپ نے اسے ڈانٹ پلائی نہ اس کی بیوی کی صریح الفاظ میں صفائی پیش فرمائی‘ بلکہ عربوں کی ذہنی سطح پر اتر کر آپ نے سمجھایا اور اس کے مغالطے کی تصحیح کردی کہ سفید رنگ کے زوجین (میاں بیوی) کے ہاں سیاہ رنگ بچے کی پیدائش بچے کی ماں کی بدکاری و بدچلنی پر دلالت نہیں کرتی۔ یہ خاندانی اثرات ہوتے ہیں جو کبھی بہت دور نسل میں نمایاں ہو جاتے ہیں۔ اس سے بچے کے نسب پر درحقیقت کوئی عیب اور نقص واقع نہیں ہوتا۔ 2. اس سے معلوم ہوا کہ سائل کو جواب حکمت سے اور اس کی ذہنی سطح کو ملحوظ رکھ کر دینا چاہیے۔ فلسفیانہ جواب کی بجائے عام روزمرہ کی مثالوں سے جواب دینا تفہیم مدعا کے لیے زیادہ مفید اور کارگر ہے۔ 3.اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس چیز کی حقیقت کا علم نہ ہو اسے صاحب علم سے دریافت کر لینا انسان کوبہت بڑے فتنے سے محفوظ رکھتا ہے۔