بلوغ المرام - حدیث 925

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ الطَّلَاقِ حسن وَعَنْ جَابِرٍ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((لَا طَلَاقَ إِلَّا بَعْدَ نِكَاحٍ، وَلَا عِتْقَ إِلَّا بَعْدَ مِلْكٍ)). رَوَاهُ أَبُو يَعْلَى، وَصَحَّحَهُ الْحَاكِمُ، وَهُوَ مَعْلُولٌ وَأَخْرَجَ ابْنُ مَاجَهْ: عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ مِثْلَهُ، وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ، لَكِنَّهُ مَعْلُولٌ أَيْضًا.

ترجمہ - حدیث 925

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل باب: طلاق کا بیان حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ طلاق نکاح کے بعد ہی ہو سکتی ہے۔ اور آزادی ملکیت کے بعدہی ممکن ہے۔‘‘ (اسے ابو یعلی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے‘ حالانکہ یہ معلول ہے۔ اور ابن ماجہ نے حضرت مسور بن مخرمہ کے واسطے سے اس جیسی روایت بیان کی ہے‘ اس کی سند (ظاہراً) حسن ہے لیکن وہ بھی معلول ہے۔)
تشریح : 1. یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ آدمی نے جب طلاق اور آزادی کو معلق کیا‘ مثلاً: یوں کہا کہ وہ عورت جس سے میں نکاح کروں گااسے طلاق ہے یا یوں کہے کہ ہر وہ غلام جسے میں خریدوں گا وہ آزاد ہے تو نکاح کر لینے اور غلام خرید لینے کے بعد اس پر عمل نہیں کیا جائے گا‘ یعنی نکاح کے بعد عورت پر طلاق واقع نہیں ہوگی اور خریدنے کے بعد غلام بھی آزاد نہیں ہوگا بلکہ اس کا یہ قول لغو اور ضائع ہو گا۔ 2.اس مسئلے کی بے شمار صورتیں ہیں‘ یہ حدیث مطلقاً تمام صورتوں کو شامل ہے۔ اسے عام رکھا جائے گا اور مختلف احوال میں فرق نہیں کیا جائے گا۔ 3. یہ مسئلہ ان اختلافی مسائل میں سے ہے جو مشہور و معروف ہیں۔ جمہور تو کہتے ہیں کہ یہ طلاق اورآزادی قطعاً واقع نہیں ہوگی جبکہ احناف کہتے ہیں کہ بہرنوع یہ واقع ہو جائے گی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس میں تفصیل ہے اور مختلف احوال کے لحاظ سے فرق ہے‘ چنانچہ اگر کسی عورت کا نام لیا گیا ہو یا کسی گروہ ‘قبیلے‘ جگہ یا وقت کی تعیین کی جائے تو طلاق اور آزادی واقع ہو جائے گی۔ اگر یہ صورت نہ ہو تو پھر نہیں۔ لیکن ظاہر یہ ہے کہ ایسی صورت میں طلاق ہر گز واقع نہیں ہوگی جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔
تخریج : أخرجه أبويعلى: لم أجده، والحاكم:2 /420، وللحديث شواهد، وحديث المسور بن مخرمة: أخرجه ابن ماجه، الطلاق، حديث:2048 وهو حديث حسن. 1. یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ آدمی نے جب طلاق اور آزادی کو معلق کیا‘ مثلاً: یوں کہا کہ وہ عورت جس سے میں نکاح کروں گااسے طلاق ہے یا یوں کہے کہ ہر وہ غلام جسے میں خریدوں گا وہ آزاد ہے تو نکاح کر لینے اور غلام خرید لینے کے بعد اس پر عمل نہیں کیا جائے گا‘ یعنی نکاح کے بعد عورت پر طلاق واقع نہیں ہوگی اور خریدنے کے بعد غلام بھی آزاد نہیں ہوگا بلکہ اس کا یہ قول لغو اور ضائع ہو گا۔ 2.اس مسئلے کی بے شمار صورتیں ہیں‘ یہ حدیث مطلقاً تمام صورتوں کو شامل ہے۔ اسے عام رکھا جائے گا اور مختلف احوال میں فرق نہیں کیا جائے گا۔ 3. یہ مسئلہ ان اختلافی مسائل میں سے ہے جو مشہور و معروف ہیں۔ جمہور تو کہتے ہیں کہ یہ طلاق اورآزادی قطعاً واقع نہیں ہوگی جبکہ احناف کہتے ہیں کہ بہرنوع یہ واقع ہو جائے گی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس میں تفصیل ہے اور مختلف احوال کے لحاظ سے فرق ہے‘ چنانچہ اگر کسی عورت کا نام لیا گیا ہو یا کسی گروہ ‘قبیلے‘ جگہ یا وقت کی تعیین کی جائے تو طلاق اور آزادی واقع ہو جائے گی۔ اگر یہ صورت نہ ہو تو پھر نہیں۔ لیکن ظاہر یہ ہے کہ ایسی صورت میں طلاق ہر گز واقع نہیں ہوگی جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔