كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ الْخُلْعِ صحيح عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ أَتَتْ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ مَا أَعِيبُ عَلَيْهِ فِي خُلُقٍ وَلَا دِينٍ، وَلَكِنِّي أَكْرَهُ الْكُفْرَ فِي الْإِسْلَامِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ؟))، قَالَتْ: نَعَمْ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((اقْبَلِ الْحَدِيقَةَ، وَطَلِّقْهَا تَطْلِيقَةً)). رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. وَفِي رِوَايَةٍ لَهُ: وَأَمَرَهُ بِطَلَاقِهَا. وَلِأَبِي دَاوُدَ، وَالتِّرْمِذِيِّ وَحَسَّنَهُ: ((أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ اخْتَلَعَتْ مِنْهُ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - عِدَّتَهَا حَيْضَةً)). وَفِي رِوَايَةِ عَمْرِوِ بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عِنْدَ ابْنِ مَاجَهْ: أَنَّ ثَابِتَ بْنَ قَيْسٍ كَانَ دَمِيمًا (1) وَأَنَّ امْرَأَتَهُ قَالَتْ: لَوْلَا مَخَافَةُ اللَّهِ إِذَا دَخَلَ عَلَيَّ لَبَسَقْتُ فِي وَجْهِهِ. وَلِأَحْمَدَ: مِنْ حَدِيثِ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ: وَكَانَ ذَلِكَ أَوَّلَ خُلْعٍ فِي الْإِسْلَامِ.
کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل
باب: خلع کا بیان
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں ثابت بن قیس کے اخلاق اور دین میں کوئی عیب نہیں نکالتی لیکن اسلام (کی موجودگی )میں نافرمانی و ناشکری کو مکروہ جانتی ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تو اس کا باغ اسے واپس کر دے گی؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں!۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(اے ثابت!) اپنا باغ لے لو اور اسے طلاق دے دو۔‘‘ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے‘ اور بخاری ہی کی ایک روایت میں ہے: آپ نے اسے طلاق دینے کا حکم دیا۔ ابوداود اور ترمذی میں ہے‘ اور امام ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے‘ کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے ان سے خلع کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے عدت ایک حیض مقرر فرمائی۔ اور ابن ماجہ میں عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند سے منقول روایت میں ہے: ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ خوبصورت نہ تھے اور ان کی بیوی نے کہا: اگر مجھے اللہ کا خوف اور ڈر نہ ہوتا تو جس وقت وہ (خلوت میں) میرے پاس آیا تھا‘ میں اس کے منہ پر تھوک دیتی۔ اور مسند احمد میں حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اسلام میں یہ پہلا خلع تھا۔
تشریح :
1. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر بیوی کا معقول عذر ہو تو وہ حق مہر خاوند کو واپس دے کر یا کوئی اور مال دے کر خلع کرا سکتی ہے۔ 2. ہمارے فاضل محقق نے عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ اور حضرت سہل بن ابی حثمہ سے مروی روایات کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے شواہد کی بنا پر حسن لغیرہ قرار دیا ہے جو کہ محدثین کے نزدیک قابل عمل اور قابل حجت ہوتی ہے‘ نیز ان کی بابت بحث و تمحیص سے تحسین حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲۶ /۱۸‘ ۱۹) وضاحت: [حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ ] انصار کے قبیلۂخزرج سے تعلق رکھتے تھے‘ اسی لیے انصاری خزرجی کہلائے۔ اکابر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں شمار ہوتے تھے۔ انصار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطیب تھے۔ اُحد اور اس کے بعد کے تمام غزوات میں شریک ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جنت کی بشارت دی۔ ۱۲ ہجری میں یمامہ کی معرکہ آرائی میں شہید ہوئے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الطلاق، باب الخلع....، حديث:5273، وحديث امرأة ثابت بن قيس اختلعت منه: أخرجه أبوداود، الطلاق، حديث:2229، والترمذي، الطلاق واللعان، حديث:1185، وسنده حسن، وحديث عمرو بن شعيب: أخرجه ابن ماجه، الطلاق، حديث:2057 وسنده ضعيف، حجاج بن أرطاة ضعيف مدلس وعنعن، والحديث ضعفه البوصيري، وحديث سهل بن أبي حثمة: أخرجه أحمد:4 /3 وسنده ضعيف، فيه حجاج بن أرطاة عنعن.
1. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر بیوی کا معقول عذر ہو تو وہ حق مہر خاوند کو واپس دے کر یا کوئی اور مال دے کر خلع کرا سکتی ہے۔ 2. ہمارے فاضل محقق نے عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ اور حضرت سہل بن ابی حثمہ سے مروی روایات کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے شواہد کی بنا پر حسن لغیرہ قرار دیا ہے جو کہ محدثین کے نزدیک قابل عمل اور قابل حجت ہوتی ہے‘ نیز ان کی بابت بحث و تمحیص سے تحسین حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲۶ /۱۸‘ ۱۹) وضاحت: [حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ ] انصار کے قبیلۂخزرج سے تعلق رکھتے تھے‘ اسی لیے انصاری خزرجی کہلائے۔ اکابر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں شمار ہوتے تھے۔ انصار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطیب تھے۔ اُحد اور اس کے بعد کے تمام غزوات میں شریک ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جنت کی بشارت دی۔ ۱۲ ہجری میں یمامہ کی معرکہ آرائی میں شہید ہوئے۔